نوح (ہریانہ) میں پیر کو یاترا نکلنی تھی جو بھرپور تیاری اور ضد، کہ ہم نکال کر رہیں گے، کے باوجود نہیں نکلی۔ کیوں نہیں نکلی اس کے جواب پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور دیگر وزرائے اعلیٰ کو غور کرنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: August 30, 2023, 1:31 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
نوح (ہریانہ) میں پیر کو یاترا نکلنی تھی جو بھرپور تیاری اور ضد، کہ ہم نکال کر رہیں گے، کے باوجود نہیں نکلی۔ کیوں نہیں نکلی اس کے جواب پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور دیگر وزرائے اعلیٰ کو غور کرنا چاہئے۔
نوح (ہریانہ) میں پیر کو یاترا نکلنی تھی جو بھرپور تیاری اور ضد، کہ ہم نکال کر رہیں گے، کے باوجود نہیں نکلی۔ کیوں نہیں نکلی اس کے جواب پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور دیگر وزرائے اعلیٰ کو غور کرنا چاہئے۔ غور کرنے کے ساتھ اُنہیں نہایت دیانتداری سے یہ مان لینا چاہئے کہ اگر انتظامیہ طے کرلے کہ کسی کو شرارت کرنے او رنظم و نسق بگاڑنے کا موقع نہیں دیا جائیگا تو پھر حکومت کی طاقت سے ٹکرانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا خواہ وہ بجرنگ دَل ہو یا وی ایچ پی یا کوئی اور تنظیم۔ یہ ثابت کر دکھانے پر ہم کھٹر سرکار کی ستائش کرنا چاہتے ہیں کہ اس نے نوح میں شرپسندوں کو بے بس کر دیا اور اُنہیں گھر سے باہر نکلنے کا موقع نہ دے کر ہنگامہ آرائی اور تشدد کا راستہ ہی بند کردیا۔ یہی ہونا چاہئے مگر عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ یہی مستعدی کھٹر سرکار نے ۳۱؍ جولائی کو دکھائی ہوتی، جسے انٹیلی جنس سے اشارہ ملا ہوگا کہ بعض سماج دشمن عناصر کے ارادے نیک نہیں ہیں، تو نوح کا امن غارت ہوتا نہ ہی جان و مال کا اتنا بڑا نقصان راہ پاتا۔ کھٹر سرکار اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے مونو مانیسرکے اُس ویڈیو کی اطلاع تھی جس میں مبینہ طور پر اُس نے کہا تھا کہ ’’مَیں آرہا ہوں‘‘ او رجو تیزی سے گشت کررہا تھا۔ کھٹر سرکار نے حفظ ماتقدم کا سہارا لیا ہوتا اور نقض امن کا سبب بننے والوں کو سنگین نتائج کا انتباہ دیا ہوتا تو حالات خراب نہ ہوتے اور یاترا نکالنے والوں میں اتنی ہمت نہ ہوتی کہ تین ہفتوں بعد دوبارہ یاترا نکالنے کی بابت سوچتے۔
کسی بھی علاقے کے فساد کا، جو ماضی میں ہوا، تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے یہی معلوم ہوگا کہ پولیس کی چشم پوشی یا لاپروائی یا خاموش تماشائی بنے رہنے کی حقیقت فساد کا سبب بنی۔ ’’شہر میں کرفیو‘‘ کے مصنف اور ملک کے ممتاز آئی پی ایس افسر وبھوتی نرائن رائے نے ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ ’’فسادات کے دوران اکثریتی فرقہ کے لوگ پولیس کو اپنا دوست سمجھتے ہیں۔‘‘ یہ شاید اس لئے ہے کہ نہایت مخدوش حالات میں پولیس غیر جانبدار نہیں رہ پاتی۔ اگر ہمارا یہ احساس درست ہے تو تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے بالواسطہ یا بلاواسطہ احکام اور اشاروں کی منتظر بھی رہتی ہے۔ سارا قصور پولیس کا نہیں ہوتا۔ اسی لئے وبھوتی نارائن ہی کا یہ دوسرا بیان زیادہ جامع ہے کہ ’’اگر حکومت چاہے تو کوئی بھی فساد چوبیس گھنٹے سے زیادہ جاری نہ رہ سکتا۔‘‘
ہم چاہتے ہیں کہ کھٹر، پیر کو یاترا کو روکنے اور اس طرح ممکنہ تشدد کا راستہ بند کرنے کا کریڈٹ لیں مگر اس شرط پر کہ ۳۱؍ جولائی کو جو کچھ ہوا اُس کی ذمہ داری قبول کریں۔ یہ دیانتداری کا تقاضہ ہے۔ جب وہ ایسا کرینگے تو اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ نوح کے تشدد کیلئے کانگریس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائینگے جیسا کہ چند خبروں سے واضح ہورہا ہے۔ خبروں کے مطابق ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وِج کا کہنا ہے کہ اب تک کی تفتیش سے یہ سراغ مل رہا ہے کہ تشدد کانگریس نے بھڑکایا، اس کیلئے نوح کے رُکن اسمبلی مامن خان کا نام لیا جارہا ہے۔ ہمارا کام دفاع کرنا نہیں ہے مگر ہم اتنا جانتے ہیں، جیسا کہ بالائی سطور میں کہا گیا، کہ اگر انٹیلی جنس کی رپورٹ، جو یقیناً حکومت کے پاس ہوگی، کو سامنے رکھتے ہوئے فعالیت کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا اور تشدد کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہوتی تو جو کچھ ہوا وہ ہرگز نہ ہوتا ۔