Inquilab Logo Happiest Places to Work

قوم یہود کے جرائم کی تاریخ قرآن مجید کےعلاوہ دیگر آسمانی صحیفوں میں بھی ہے

Updated: November 10, 2023, 3:48 PM IST | Naeem Siddiqui | Mumbai

مسئلۂ فلسطین کاتجزیہ بغیر اس کے ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم قوم یہود کے کردار کو سمجھیں جو مشرق ِ وسطیٰ کے اسٹیج پر ہونے والے حزنیہ ڈرامے کی مرکزی کردار ہے۔

The Jewish nation must remember that its force, intrigue and cruelty alone are not decisive, and that dollars, gunpowder and atomic bombs are not the ultimate power, but above it the law of providence works. Photo: INN
قوم یہود کو یاد رہنا چاہئے کہ صرف اس کی قوت، سازش اور ظلم ہی فیصلہ کن نہیں، اور ڈالر، بارود اور ایٹم بم ہی آخری طاقت نہیں بلکہ اس سے اوپر مشیت کا قانون بھی کام کرتا ہے۔ تصویر : آئی این این

بغیر کسی تعصب یا اندھے جذبۂ معاندت کے، حقائق و واقعات مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آج کی انسانی دنیا کا ماحول بگاڑنے اور تہذیب کو فساد کا شکار بنانے میں سب سے بڑھ کر حصہ اس چھوٹی سی قوم کا ہے جو اسرائیل کی نام لیوا ہے۔ آج کی تہذیب ِ مادیت پر اس کی غیرمحسوس گرفت ہے۔ مادہ پرستی، مذہب دشمنی، حیاباختگی، اخلاق سوزی اور دوسرے مختلف فتنوں کی ایجاد اور ان کے فروغ کا سہرا اسی قوم کے سر بندھتا ہے۔
  اس قوم نے اپنے انسانیت سوز جرائم کی بے حد سنگین سزائیں بھگتی ہیں ۔ تالمود، تورات، انجیل اور قرآن میں بنی اسرائیل کے فسانۂ عبرت کے تمام ابواب محفوظ ہیں اور زمانہ حال میں ان پر نازی جرمنی میں جو کچھ بیتی اس سے دنیا آگاہ ہے۔ مگر تاریخ میں یہ قوم اس لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے کہ اس نے قدرت کے تازیانے کھا کھا کر بھی کبھی اپنے آپ کو سنوارنے سنبھالنے کی کوشش نہیں کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ مشیت ِ الٰہی نے ایک طرف اس مغضوب قوم کو تباہ شدہ مہذب اقوام کے خلاف بطور خاص زندہ رکھ چھوڑا ہے تاکہ انسانیت کے بیدار دل لوگ اس کی روداد اور کارستانیوں سے سبق سیکھیں اور دوسرے اس کو کارکنانِ قضا و قدر نے اپنے ہاتھوں میں عذاب کا کوڑا بنالیا ہے۔ یہ بار بار مار کھاتی ہوئی قوم انسانیت کیلئے بار بار باعث ِ عقوبت و اذیت بنتی ہے۔ اس کے ہاتھوں اولادِ آدم کو کبھی صلاح و فلاح نصیب نہیں ہوسکی۔
  مسئلہ فلسطین کاتجزیہ بغیر اس کے ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم قوم یہود کے کردار کو سمجھیں جو مشرق ِ وسطیٰ کے اسٹیج پر ہونے والے حزنیہ ڈرامے کی ہیروئن ہے۔ آئیے، سب سے پہلے ہم اس چارج شیٹ کا مطالعہ کریں جو قرآن نے اس قومِ مغضوب پر لگایا ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :
 ’’تھوڑی قیمت (ادنیٰ دنیوی فائدوں ) کے بدلے میری آیات کو نہ بیچ ڈالو۔‘‘ (البقرہ:۴۱)
 ’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔‘‘ 
(البقرہ:۴۲)
 ’’تم دوسروں کو تو نیکی کا رستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہومگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔‘‘ 
 (البقرہ:۴۴)
 ’’یاد کرو، جب ہم نے موسیٰؑ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو معبودبنا بیٹھے۔‘‘ (البقرہ:۵۱)
 ’’یاد کرو، جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں ۔‘‘ (البقرہ:۵۵)
 ’’پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے اس میں داخل ہوجاؤ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے سے سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطتہ حطتہ… مگر جو بات کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا۔‘‘ (البقرہ: ۵۸۔۵۹)
 ’’یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰؑ ! ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لئے زمین کی پیداوار، ساگ، ترکاری، گیہوں ، لہسن، پیاز دال وغیرہ پیدا کرے۔آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا، اور اس بات کا کہ وہ حدود ِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔‘‘ (البقرہ:۶۱)
 پیغمبروں کے قتل اور دق کرنے میں یہودیوں کا کچاچٹھا بھی یہاں درج ہوجانا چاہئے۔ تاریخ ذیل کی دردناک مثال ہمارے سامنے لئے کھڑی ہے:
 (۱)حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت یہودیہ اور سامریہ کی دو ریاستوں میں بٹ گئی اور ان میں جنگ و جدال ہونے لگا تو یہودیہ والوں نے اپنے دینی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی۔ آسا نے برہم ہوکر خدا کے نبی کو حوالۂ زنداں کردیا۔ (کتاب مقدس تواریخ۔ آیات ۷؍تا۱۰)
 (۲)حضرت الیاس ؑ نے جب بعل کی پرستش سے یہودیوں کو منع فرمایا اور توحید اختیار کرنے کی دعوت دی تو سامریہ کا بادشاہ اخی اپنی مشرک بیوی کی خوشنودی کیلئے ہاتھ دھوکر ان کی جان کا لاگو ہوگیا۔ حضرت الیاس ؑ جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں چلے گئے۔ اس موقع پر پیغمبر خدا نے یہ دعا مانگی کہ ’’بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا…تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں ، سو وہ میری جان لینے کے در پے ہیں ۔‘‘ ( کتاب مقدس ۔سلاطین باب ۱۹۔ آیات ۱؍تا۱۰)
 (۳) دوسرے نبی حضرت میکایاہ کو اسی بادشاہ اخی نے حق گوئی سے محروم کرکے جیل بھیج دیا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (کتاب مقدس۔ سلاطین۔ باب ۲۲۔ آیات ۲۶۔۲۷)
 (۴) پھر جب یہودیہ کی ریاست میں علانیہ بت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاؑ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو شاہ یہوداہ یو آس کے حکم سے انہیں عین ہیکل سلیمانی میں مقدس اور قربان گاہ کے درمیان سنگسار کردیا گیا۔ (کتاب مقدس ۔ تواریخ۔ باب ۲۴۔ آیت ۲۱)
 (۵) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست آشوریوں کے ہاتھوں ختم ہوچکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سرپر تباہی کا طوفان تلا کھڑا تھا تو یرمیاہ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اٹھے اور کوچے کوچے میں انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب ملا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی، پیٹے گئے، قید کئے گئے، رسی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹا دیئے گئے تاکہ بھوک اور پیاس سے وہیں سوکھ سوکھ کر مر جائیں ، اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں ۔ (یرمیاہ۔ باب ۱۶ ۔ آیت ۱۰، باب ۱۸ آیت ۲۰۔۲۳، باب ۲۰ آیت ۱، ۱۸۔ باب ۳۶ تا باب۴۰)
 (۶) ایک اور نبی حضرت عاموسؑ کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جاؤ اور باہر جا کر نبوت کرو۔ (عاموس ۔ باب۷۔ آیت ۱۰ تا ۱۳)
 (۷) حضرت یحییٰ ؑ (یوحنا) نے جب ان بداخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی جو یہودیہ کے فرماں روا ہیرودیس کے دربار میں کھلم کھلا ہورہی تھیں تو پہلے وہ قید کئے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کرکے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کیا۔ (مرقس۔ باب ۶ ۔ آیت ۱۷،۱۹)
 (۸) آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بنی اسرائیل کے عالموں ، پیروں اور سردارانِ قوم کا غصہ بھڑکا کیونکہ وہ انہیں اُن کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے۔ قطع نظر ان مناظرانہ اور فقیہانہ اعتراضات کے جو حضرت عیسیٰؑ اور آپ کے پیروؤں کے خلاف اٹھائے جاتے رہے، آخرکار ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ کھڑا کیا گیا۔ رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رومی حاکم پیلاطیس نے یہود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسوع اور براباڈاکو میں سے کس کو لٹکا دوں ؟ تو پورا مجمع بالاتفاق پکار کر کہنے لگا کہ برابا کو چھوڑ دے اور یسوع کو پھانسی پرلٹکا دے۔
(متی۔ باب۲۷، آیت ۲۰ تا ۲۶)
 اس تفصیل کے بعد ہم پھر اصل چارج شیٹ پر آتے ہیں ، قرآن مجید میں فرمایا جارہا ہے:
 ’’یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے۔مگر اس کے بعد تم اپنے عہد سے پھر گئے (مُکر گئے) اس پر بھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا، ورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے۔‘‘  
(البقرہ۔۶۳۔۶۴)
 ’’پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا، ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔‘‘ (البقرہ:۶۵)
 ’’پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ، اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ (پھر وہ تعمیل حکم سے گریز کے لئے طرح طرح کے سوالات اٹھاتے رہے)۔ (البقرہ: ۶۷؍تا۷۱)
 ’’مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے، اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ:۷۴)
 ’’اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔‘‘ (البقرہ:۷۵)
 ’’یہودی کہتے ہیں : عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ، عیسائی کہتے ہیں : یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں ، جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے۔ یہ اختلافات، جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ، ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا ۔‘‘ (البقرہ:۱۱۳)
 ’’یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔‘‘  (البقرہ:۱۱۳)
 قرآن پاک میں اور بھی کئی آیات میں قوم یہود کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی تاریخ، تاریخ جرائم سمیٹ کر ایک جرم عظیم کی صورت میں سامنے ہے۔ اس قوم نے انسانیت کو خیر و فلاح کا کوئی تحفہ نہیں دیا بلکہ مکر و سازش، ظلم و جبر، فتنہ و فساد، تباہی و غارت گری اور دلآزاری کے تحائف عطا کئے ہیں ۔
 قوم یہود کو یاد رہنا چاہئے کہ صرف اس کی قوت، سازش اور ظلم ہی فیصلہ کن نہیں ، اور ڈالر، بارود اور ایٹم بم ہی آخری طاقت نہیں بلکہ اس سے اوپر مشیت کا وہ قانون کام کرتا ہے جو بالکل خلافِ علم و فکر یکایک حوادث کو ابھار دیتا ہے جو پوزیشن کو بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔ پھر کیا نفرت، ظلم اور فتنہ گری کا راستہ اختیار کرنے والی قومِ ِمغضوب اپنے بچنے کا کوئی راستہ نکال سکتی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK