حقیقی مسلمان کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اُن کے ساتھ خوش معاملگی سے پیش آتا ہے۔
EPAPER
Updated: February 10, 2023, 1:03 AM IST | Dr. Muhammad Ali Hashmi | Mumbai
حقیقی مسلمان کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اُن کے ساتھ خوش معاملگی سے پیش آتا ہے۔
حقیقی مسلمان کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اُن کے ساتھ خوش معاملگی سے پیش آتا ہے۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ان جلیل القدر کاموں میں سے ہے جن کی اسلام نے سخت تاکید کی ہے۔ قرآن و سنت میں یہ نصوص بکثرت مذکور ہیں، اور ان سب میں والدین کے ساتھ نیک سلوک اور حُسنِ مصاحبت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ایک باشعور مسلمان کی ایک ممتاز خصلت اور نمایاں عادت ہوتی ہے۔
اسلام نے والدین کے ساتھ نیک برتائو اور حسنِ سلوک کو رب العالمین پر ایمان اور اس کی بندگی کے درجے کے بعد متصل رکھا ہے۔ قرآن کریم کی بکثرت آیات مذکور ہیں جو خدا کی خوشنودی کے بعد والدین کی خوشنودی کا درجہ قرار دیتی ہیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو، خدا پر ایمان کی فضیلت کے بعد سب سے بڑی انسانی فضیلت قرار دیتی ہیں:
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو‘‘۔ (النسا:۳۶ )
اس لئے سچا اور باشعور مسلمان دنیا میں ہر انسان سے زیادہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے۔
قرآن کریم نے والدین کے مقام کی بہترین تصویر کشی کی ہے اور وہ بلند اخلاقی اسلوب بتلایا ہے جسے ایک مسلمان کو والدین کے ساتھ معاملہ برتنے میں اختیار کرنا چاہئے۔ اگر دونوں یا کسی ایک کی عمر طویل ہوجائے اور وہ بڑھاپے، کمزوری اور بے چارگی کے مرحلے میں پہنچ جائیں تو اسلام نے ان کے ساتھ ایسا برتائو کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس دین کے آنے سے پہلے انسانیت نے کبھی نہیں دیکھا تھا:
’’تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ سوائے اس کے کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کرو۔ نہ انہیں جھڑک کر جواب دو۔ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (الاسراء:۲۴۔۲۳)
غور کیجئے کہ اس آیت میں اللہ کی عبادت اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کے درمیان کس قدر مضبوط تعلق پایا جارہا ہے۔ اس طرح والدین کے مرتبہ و مقام کو اتنی بلندی اور ان کی قدر و منزلت کو اتنی رفعت حاصل ہوتی ہے جہاں تک حکما ءو مصلحین اور معلمین اخلاق کبھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔
آیت کا سیاق والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی یہ روشن اور عظیم تصویر کھینچنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ وجدانی، رقیق اور محبت آمیز تعبیر کے ذریعے، جس سے رقت، سلاست اور انسیت ٹپکتی ہے، بیٹوں کے دلوں میں رحم و ہمدردی اور حسنِ سلوک کے جذبات موجزن کردیتا ہے (اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں) تو وہ تمہاری دیکھ بھال، نگرانی اور حفاظت میں رہتے ہیں اور وہ بوڑھے، ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں، اس لئے احتیاط کرو کہ کہیں تمہارے منہ سے ناراضی، ملامت، اکتاہٹ اور تنگی کا کوئی کلمہ نہ نکل جائے (تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑک کر جواب دو) بلکہ کوئی بات کہنے سے پہلے دیر تک سوچ لو اور ایسی بات کہو جو ان کو پسندیدہ ہو اور جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔( ان سے احترام کے ساتھ بات کرو) ان کے ساتھ پورے احترام اور انتہائی ادب کے ساتھ کھڑے ہو، جس طرح انتہائی عاجزی و فروتنی اور خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہوا جاتا ہے (اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو) اور ان کے لیے تمہاری زبان سے دعا نکلنی چاہیے کیونکہ انہوں نے تم پر ایسا احسان کیا ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا، اور تمہاری اُس وقت پرورش کی ہے جب تم چھوٹے، کمزور اور ناتواں تھے (اور دُعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا)۔
مسلمان (جو کھلے دل اور روشن بصیرت کا حامل ہوتا ہے) اس قسم کے خدائی ارشاد کو متعدد آیتوں میں پاتا ہے۔ چنانچہ اس کے (ایک مسلمان کے) اپنے والدین کے ساتھ احترام اور حسنِ سلوک میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔