خالق اکبر چاہتا ہے کہ مشاہدۂ فطرت سے انسان کے اندر افادیت کا شعور بیدار ہواور منعم کے احسانات کا ادراک حاصل ہو۔ اس کے بعد ہی وہ منعم ِ حقیقی کا احسان مند اور شکرگزار بن سکتا ہے اور رب العالمین کی ربوبیت کا اقرار کرسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: September 22, 2023, 12:00 PM IST | Syed Muhammad Saleem | Mumbai
خالق اکبر چاہتا ہے کہ مشاہدۂ فطرت سے انسان کے اندر افادیت کا شعور بیدار ہواور منعم کے احسانات کا ادراک حاصل ہو۔ اس کے بعد ہی وہ منعم ِ حقیقی کا احسان مند اور شکرگزار بن سکتا ہے اور رب العالمین کی ربوبیت کا اقرار کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیداکیا اور پھر اس کو زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ اُس کے حسنِ کارکردگی کی آزمائش ہو۔ انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت نامہ قرآن مجید نازل فرمایا جو انسان کو اُس کی حقیقت سے ، اس کے آغاز اور اُس کے انجام سے باخبر کرتا ہے، اس کی گوناگوں صلاحیتوں اور استعدادوں کے لئے صحیح راہِ عمل متعین کرتا ہے اور کامیابی اور ناکامی کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
جس طرح ایک موجد اپنی ایجادکردہ مشین کے ساتھ ایک ہدایت نامہ اور ایک گائیڈ بک بھی دیتا ہے تاکہ اُس کی ہدایت کے مطابق مشین کو استعمال کیا جائے اور مطلوبہ فوائد حاصل کئے جائیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کیلئے یہ گائیڈ بک اتاری ہے۔ اس کی روشنی میں اور اس کی ہدایت کے مطابق اگر انسان زندگی گزارے گا تو کامیاب اور بامراد ہوگا اور اگر اس گائیڈ بک کو نظرانداز کرکے اور اس کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر من مانے طریقے سے زندگی گزارے گا تو ناکام اور نامراد ہوگا۔
اِس کتاب میں بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان صبر و تحمل کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرے۔ راہ چلتے آدمی کو ساحل پر موتی پڑے ہوئے نہیں ملتے بلکہ موتیوں کے لئے سمندر کی تہہ میں غواصی کرنا پڑتی ہے۔ تہہ میں غواصی کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔
عقائد اور کلام کے نقطۂ نظر سے علماء نے اس کتاب پر غور کیا تو اُن کی جھولی بھر گئی۔ کتنی ہی کتاب العقائد اور کتاب الکلام تیار ہوگئیں ۔ احکام کے نقطۂ نظر سے فقہاء نے اس پر غور کیا تو کتنی ہی کتاب الاحکام تیار ہوگئیں ۔ صوفیاء نے ریاضیات اور مکاشفات کے نقطۂ نظرسے غور کیا تو ہر آیت میں انہیں اپنی دنیا بسی نظر آئی اور صوفیانہ تفاسیر وجود میں آگئیں ۔ غرض کہ دلالۃ النص، اشارۃ النص اور فحوائے کلام میں ایک لامتناہی ذخیرۂ علم مخفی ہے۔ دوسرے لوگ بھی غور و فکر کریں اور تلاش کریں تو ان شاء اللہ وہ بھی خالی ہاتھ نہیں جائینگے، ان کی جھولی بھی بھر جائیگی۔ حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ’’اس (قرآن) کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔‘‘ ذیل میں جمالیات کے نقطۂ نظر سے ہم اس کتاب پر غور کرتے ہیں :
قرآن مجید انسان کو مناظر قدرت اور مظاہر فطرت کا مشاہدہ کراتا ہے، ان پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس پر یہ بات واضح ہوجائے کہ قدرت کا فیضان عام ہے اور افادیت کا وسیع دسترخوان ہر چہارطرف بچھا ہوا ہے جس سے ساری مخلوق مستفید ہورہی ہے اور جس سے سارے انسان مستفید ہورہے ہیں ۔ خالق اکبر چاہتا ہے کہ مشاہدۂ فطرت سے انسان کے اندر افادیت کا شعور بیدار ہو اور منعم کے احسانات کا ادراک حاصل ہو ۔ اس کے بعد ہی وہ منعم ِ حقیقی کا احسان مند اور شکرگزار بن سکتا ہے اور رب العالمین کی ربوبیت کا اقرار کرسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں ) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤ، کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں ، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں ، اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو (مستقل) سکونت کی جگہ بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے (عارضی) گھر (یعنی خیمے) بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے وقت اور (دورانِ سفر منزلوں پر) اپنے ٹھہرنے کے وقت ہلکا پھلکا پاتے ہو اور (اسی اللہ نے تمہارے لئے) بھیڑوں اور دنبوں کی اون اور اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو استعمال اور (معیشت و تجارت میں ) فائدہ اٹھانے کے اسباب بنائے (جو) مقررہ مدت تک (ہیں )، اور اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ کئی چیزوں کے سائے بنائے اور اس نے تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور (کچھ) ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں (دشمن کے وار سے) بچاتے ہیں ، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتِ (کفالت و حفاظت) پوری فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کر دو۔ سو، اگر (پھر بھی) وہ رُوگردانی کریں تو (اے نبی ٔ معظم!) آپ کے ذمہ تو صرف (میرے پیغام اور احکام کو) صاف صاف پہنچا دینا ہے، یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر کافر ہیں ۔‘‘ (سورہ النحل: ۷۸؍تا۸۳)
ایک دوسری جگہ انسانی مرغوبات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:
’’لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں ) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں )، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۴)
متاعِ دنیا کے ساتھ ساتھ اُس نے انسان کو حسنِ نظر اور ذوقِ جمالیات کی دولت بھی بخش دی ۔ وہ انسان کے اندر جمالیاتی حس کو بیدار کرنا چاہتا ہے ، وہ انسان کے اندر حسن و جمال کی قدر شناسی پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ تب ہی تو انسان خالقِ حسن و جمال کی قدر کرے اور توقیر و تقدیس کرے گا۔ متاعِ دنیا کے ساتھ ساتھ اُس نے زیب و زینت کا دستر خوان بھی عام بچھا رکھا ہے۔ قدرشناس نگاہ ہو تو اُس کو ہر جگہ جمالِ فطرت دعوت ِ نظارہ دے رہی ہے ۔ مقصود اس جنت نگاہ اور فردوس ِ گوش سے وہی ایک ہے کہ انسان خالق کی ربوبیت کا اقرار کرے اور اس کا شکرگزار بنے:
’’اور جو چیز بھی تمہیں عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز (بھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو) نہیں سمجھتے۔‘‘
جس قدرت نے ہمیں زندگی دی اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت… حسن و زیبائی کی کشش… سے بھی ان کو مالامال کردیا جائے۔ (ترجمان القرآن، مولانا ابوالکلام آزاد)
حسن و زیبائی کا دسترخوان کائنات میں بڑا وسیع بچھا ہوا ہے۔ ایک مسلمان جب قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو جگہ بہ جگہ مختلف آیتیں اُس کی توجہ حسن و جمالِ فطرت اور زیبائش و آرائش کائنات کی طرف منعطف کردیتی ہیں ، اس کو نظارۂ جمال کی قدرشناسی کی دعوت دیتی ہیں ، ایمانی انداز میں اس کے اندر تحسین ِ جمال اور توقیر حسن کا جذبہ پیدا کرتی ہیں اور چشم بینا میں حسن نظر کی شان پیدا کردیتی ہیں ۔
اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
آسمان: کبھی وہ آیتیں انسان کو آسمان کی وسعت میں پھیلے ہوئے تاروں کی جگمگاہٹ اور رونق کی طرف متوجہ کرتی ہیں ، مثلاً : ’’ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے ۔‘‘ (صافات:۶)
’’ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے ۔‘‘ (ملک:۵)
’’اور ہم نے آسمان میں روشن ستارے بنائے، اُن کو دیکھنے والوں کے لئے مزین کیا ۔‘‘ (حجر:۱۶)
’’سو کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور (کیسے) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف (تک) نہیں ہے، اور (اِسی طرح) ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس میں ہم نے بہت بھاری پہاڑ رکھے اور ہم نے اس میں ہر قسم کے خوش نما پودے اُگائے، (یہ سب) بصیرت اور نصیحت (کاسامان) ہے ہر اس بندے کیلئے جو (اﷲ کی طرف) رجوع کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ قؔ: ۶؍تا۸)
رنگینی ٔ مخلوقات: کبھی قرآن مجید کی آیات کائنات میں پھیلی ہوئی رنگ والوان کی بوقلمونی اور نیرنگی کی طرف توجہ مبذول کراتی ہیں ، الوان و انواع دعوت ِ نظارہ دیتے ہیں :
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے پھل نکالے جن کے رنگ جداگانہ ہیں ، اور (اسی طرح) پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ گھاٹیاں ہیں ، ان کے رنگ (بھی) مختلف ہیں اور بہت گہری سیاہ (گھاٹیاں ) بھی ہیں ، اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں ، بس اﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں ۔‘‘ (فاطر:۲۷۔۲۸)
عالمِ نباتات: کبھی قرآن مجید عالم نباتات میں رنگ و بُو کے حسین مناظر کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے:
’’بیشک ہم نے اُن تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اس کے لئے باعث ِ زینت (و آرائش) بنایا ہے۔‘‘ (کہف:۷)
’’بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تمہارے لئے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) سے تازہ اور خوش نما باغات اُگائے؟ تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگا سکتے۔ ‘‘ (النمل:۶۰)
’’اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے ، پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے لگتی ہے اور خوش نما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہے۔‘‘ (حج:۵)
’’اس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں ۔‘‘ (یونس:۲۴)
’’ کھجور اور انگور کی بیلوں سے ہم ایک چیز پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی۔‘‘ (نحل:۶۷ )
عالم حیوانات: اور کبھی قرآن مجید عالم حیوانات کا رخ کرتا ہے۔ انسان کو جانوروں اور چوپایوں کے حسن و جمال کی طرف متوجہ کرتا ہے:
’’اور (اُسی نے) گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو (پیدا کیا) تاکہ تم ان پر سواری کر سکو اور وہ (تمہارے لئے) باعث ِ زینت بھی ہوں۔‘‘ (نحل:۸)
’’اور ان میں تمہارے لئے رونق (اور دل کشی بھی) ہے جب تم شام کو چراگاہ سے (واپس) لاتے ہو اور جب تم صبح کو (چرانے کیلئے) لے جاتے ہو۔‘‘ (نحل:۶)
’’موسیٰؑ نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہئے، جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے۔‘‘ (بقرہ: ۶۹)
عالم انسانیت: اور کبھی قرآن مجید عالم انسانیت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ مردانہ حسن و جمال اور نسوانی رعنائی اور زیبائی کو پیش فرماتا ہے:
’’وہ اللہ ہے جس نے تمہیں شکل و صورت بخشی پھر تمہاری صورتوں کو اچھا کیا ۔‘‘ (مومن:۶۴)
’’اور ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔‘‘ (بلد:۴)
’’خواہ ان عورتوں کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو۔‘‘
(احزاب:۵۲)
’’ان نعمتوں کے درمیان خوبصورت، خوب سیرت بیویاں ہوں گی۔‘‘ (الرحمٰن:۷۰)
’’اور اُن میں نیچی نگاہ رکھنے والی (حوریں ) ہوں گی جنہیں پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ کسی جِن نے۔‘‘
(الرحمٰن:۵۶)
مال و دولت: کبھی قرآن مجید دنیا کے مال و متاع کی خوبصورتی اور پسندیدگی کی طرف متوجہ کرتا ہے:
’’مال اور اولاد (تو صرف) دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔‘‘ (کہف:۴۶)
’’لوگوں کیلئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں ) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں )، یہ (سب) دُنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۴)
کبھی قرآن مجید انسانوں کو آرائش اور زیبائش کرنے کی ترغیب دیتا ہے:
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘ (اعراف:۳۱)
’’فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کیلئے پیدا فرمائی ہے۔‘‘ (اعراف:۳۲)
حسن اعمال: کبھی قرآن مجید انسان کو حسنِ معنوی کی طرف متوجہ کرتا ہے، اخلاق جمیلہ اور حسن سیرت پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ اس سلسلے کی یہ آیتیں ملاحظہ ہوں :
’’اللہ کا رنگ اختیار کرو۔اللہ کے رنگ سے اچھا کس کا رنگ ہوسکتا ہے۔‘‘ (بقرہ:۱۳۸)
’’درحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲ (کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔‘‘ (احزاب:۲۱)
جنت کی زندگی کا حسن: ایک مومن کو حسنِ عمل اور جزائے عمل کا اجر و ثواب جنت کی صورت میں حاصل ہوگا۔ جنت میں ہر طرح کا حسن و جمال اور خوبی و کمال جمع ہوگا۔ مادی حسن، مادی آرام و آسائش، نفسیاتی سکون و طمانیت اور روحانی سرور و انبساط ہر شے وہاں مہیا ہوگی۔ وہ انسانی زندگی کا کمال اور حسن و جمال کا بھی کمال ہے:
’’پس اللہ انہیں (خوفِ اِلٰہی کے سبب سے) اس دن کی سختی سے بچا لے گا اور انہیں (چہروں پر) رونق و تازگی اور (دلوں میں ) سرور و مسرّت بخشے گا، اور اِس بات کے عوض کہ انہوں نے صبر کیا ہے (رہنے کو) جنت اور (پہننے کو) ریشمی پوشاک عطا کرے گا، یہ لوگ اس میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، نہ وہاں دھوپ کی تپش پائیں گے اور نہ سردی کی شدّت، اور (جنت کے درختوں کے) سائے ان پر جھک رہے ہونگے اور ان کے (میوؤں کے) گچھے جھک کر لٹک رہے ہوں گے، اور (خُدام) ان کے گرد چاندی کے برتن اور (صاف ستھرے) شیشے کے گلاس لئے پھرتے ہوں گے، اور شیشے بھی چاندی کے (بنے) ہوں گے جنہیں انہوں نے (ہر ایک کی طلب کے مطابق) ٹھیک ٹھیک اندازہ سے بھرا ہوگا، اور انہیں وہاں (شرابِ طہور کے) ایسے جام پلائے جائیں گے جن میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی، (زنجبیل) اس (جنت) میں ایک ایسا چشمہ ہے جس کا نام ’’سلسبیل‘‘ رکھا گیا ہے، اور ان کے اِرد گرد ایسے (معصوم) بچے گھومتے رہیں گے، جو ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے، جب آپ انہیں دیکھیں گے تو بکھرے ہوئے موتی گمان کریں گے، اور جب آپ (بہشت پر) نظر ڈالیں گے تو وہاں (کثرت سے) نعمتیں اور (ہر طرف) بڑی سلطنت دیکھیں گے، ان (کے جسموں ) پر باریک ریشم کے سبز اور دبیز اطلس کے کپڑے ہونگے، اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا ربّ انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا، بے شک یہ تمہارا صلہ ہوگا اور تمہاری محنت مقبول ہوچکی۔‘‘
(الانسان:۱۱؍تا۲۲)
اقوال رسولؐ میں بھی حسن و جمال اور طہارت و نظافت اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ارشاد نبویؐ ہے:
’’اللہ تعالیٰ حسین ہے، حسن کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)
’’اللہ تعالیٰ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
’’اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاکیزہ شے کو قبول کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)۔ ’’اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ بندہ اُس کی دی ہوئی نعمتوں کا اظہار کرے۔‘‘ (ترمذی)
مسلمان ایسی قوم ہے جو کتابِ الٰہی قرآن مجید کی ساختہ و پرداختہ ہے۔ قرآن اس کا دین ہے ۔ قرآن اس کا ایمان ہے۔ قرآن اس کی عبادت ہے۔ قرآن اس کا قانون ہے۔ قرآن اس کی زندگی کو ایک خاص نہج پر ترتیب دیتا ہے ، اس کے ذہن کی تشکیل کرتا ہے، اس کے طور طریقے، اندازِ فکر اور اندازِ نظر سب قرآن کی ہدایات کے تحت متشکل ہوتے ہیں ۔ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں قرآن مجید کے سرچشمہ سے مستفید ہوتی ہیں ۔ فیضانِ قرآن، دل و دماغ کی سوکھی کھیتیوں کی آبیاری کرتا ہے۔ یہی کتاب یعنی قرآن مجید مسلمانوں کا وظیفۂ حیات ہے اور روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا زندگی کے لائحہ عمل کا سرنامہ ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان کے ذہن کی تشکیل ہوتی ہے۔ ذات کا شعور اور خالق ِ ذات کا شعور تو انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ موجود ہے۔ یہ شعور تو وجدانی اور وہبی ہے۔ اس کے بعد انسانی شعور کا ارتقاء اکتسابی طور پر ہوتا ہے۔ انسانی شعور کا یہ سفر قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں اور ان کی ہدایات کے مطابق طے پاتا ہے۔ پہلے انسان کو اردگرد کی مادی دنیا کا احساس ہوتا ہے۔ مادی اشیاء سے اپنے گوناگوں روابط اور مادی اشیاء کے مختلف فوائد کا احساس ہوتا ہے۔ یہ انسان کا افادی شعور ہے جو بیدار ہوتا ہے ۔ جن مادی اشیاء کو پہلے وہ صرف فوائد کے نقطہ ٔ نظر سے استعمال کرتا تھا ان کو اب وہ حسن و جمال، آرائش و زیبائش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ زمین و آسمان میں ہر جگہ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک نگار خانۂ حسن و جمال پھیلا ہوا ہے۔ اس کی نگاہ میں شانِ حسن پیدا ہونے لگتی ہے ، اب اس کا شعور ِ جمال بیدار ہوتا ہے، پھر مخلوق پر غور کرتے کرتے ان کے فوائد اور جمال کی قدر کرتے ہوئے اس کا ذہن خالق جمال اور فاطر کمال کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ ہر شے میں صنعت ِکردگار کو دیکھتا ہے۔
قرآن کی آیا ت انسان کے اندر موجود حسن لطیف کو قدرت، حکمت ، فیض و کرم اور حسن و رعنائی کے چمن زاروں سے گزار کر شعورِ عرفان کے چمنستان میں پہنچا دینا چاہتی ہیں ۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے اور جب تک انسان اس کا احساس و اعتراف نہیں کرتا، کماحقہ استفادہ نہیں کرسکتا۔