Inquilab Logo

استاذ کی اہمیت اورقدرہر دَور اور ہرقوم میں رہی ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی

Updated: September 05, 2022, 12:50 PM IST | Mumbai

’یوم اساتذہ‘ کی مناسبت سے ہم نے اپنے آس پاس سے پانچ ایسے طلبہ کاا نتخاب کیا جو آج سماج میں کامیاب ہیں اور اپنی کامیابی کے ساتھ ہی اپنے اساتذہ کانام بھی روشن کررہے ہیں۔ ان طلبہ سے ہم نے ایک سوال یہ کیا کہ اسکول سے لے کر کالج تک، آپ کو کئی اساتذہ ملے، ان میں آپ کا آئیڈیل ٹیچر کون ہے؟ اورکیوں؟ اس کے بعد ہم نے ان اساتذہ سے بھی گفتگو کیکہ آپ کا اپنے طلبہ کے ساتھ کیسا رویہ تھا جس کی بنا پر وہ انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں؟ ملاحظہ کریں ان کے تاثرات

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

’’خلیق سر صرف پڑھاتے نہیں تھے،  ذہنوں میں اُترجاتے تھے‘‘
ڈاکٹر محمد آصف انور علی انصاری (ایم ایس، ڈائریکٹر، الحیات ہاسپٹل، بھیونڈی)
تعارف:پانچویں سے دسویں تک رئیس ہائی اسکول یعنی اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی۔ایم بی بی ایس کی پڑھائی’ راجیو گاندھی میڈیکل کالج، کلوا‘ میں پوری کی اور اس کے بعد’بامبے ہاسپٹل انسٹی ٹیوٹ آف  میڈیکل سائنسز، ممبئی‘ میں ماسٹر آف سرجن کیلئے گئے۔ تعلیم پوری ہونے کے بعد کچھ دنوںتک بوریولی کے بھگوتی ہاسپٹل ، گوریگاؤں کے سدھارتھ ہاسپٹل اور بھیونڈی کے’ ال معین‘ اسپتال میں اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد بھیونڈی میں الحیات اسپتال سے وابستہ ہوئے۔ ’’ جماعت اول سے لے کر سرجن میں ماسٹر کرنے تک بہت سارے اساتذہ سےاکتساب کا موقع ملا لیکن ان میں سے چند ہی اساتذہ ایسے ہیں جو آج بھی ذہن و دماغ پر راج کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک مشفق و مہربان ٹیچر خلیق قریشی صاحب ہیں جنہوں نے رئیس ہائی اسکول میں مجھے پانچویں تا دسویں  انگریزی کی تعلیم دی۔ خلیق سر کی خوبی یہ تھی کہ وہ صرف پڑھاتے نہیں تھے  بلکہ طلبہ کے ذہن میں اُتر جاتے تھے۔ان میں ’پدرانہ شفقت‘ کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ ہمارے کریئر اور ہماری شخصیت کی ہمہت جہت ترقی کیلئے فکر مند رہا کرتے تھے۔  اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میں کرکٹ میں بہت اچھاتھا اورکئی بار اسکولی سطح کے مقابلوں میں مین آف دی سیریز بھی رہا۔ اس کی وجہ سے میرا بہت سارا وقت کرکٹ کی پریکٹس اور کھیل میں چلا جاتا تھا۔ اُس وقت خلیق سر مجھے اکیلے میں بلا کر کہتے تھے کہ ’’بیٹا ! کرکٹ کو صرف تفریح تک رکھو، اسے کریئر بنانے کی مت سوچو۔ تم کچھ ایسا کرو جس سے قوم کی خدمت کرسکو۔‘‘
’’اس زمانے میں جماعتوں میں طلبہ کی تعداد چونکہ قدرے کم ہوتی تھی، اسلئے ہم تمام طلبہ پر انفرادی توجہ دینے کے قابل رہتے تھے۔ٹیوشن کی وبا عام نہیں تھی،اسلئے طلبہ بھی اسکول کی تعلیم پر توجہ دیتے تھے۔ میں خودکو بہت قابل ٹیچر نہیں سمجھتا تھا لیکن پوری ایمانداری اور پوری محنت سے میں وہ سب طلبہ میں انڈیل دینے کی کوشش کرتاتھا جو میرے پاس ہوتا تھا۔ آج جب میں  اپنے طلبہ کو کامیاب و کامران دیکھتا ہوں تو بہت فخر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محنت وصول ہوگئی۔‘‘
خلیق قریشی (سبکدوش معلم، رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)’’

آل زہرہ مس مجھے چیلنجوں سے مقابلے کیلئے تیار کرتی تھیں‘‘
احمد کفایت اللہ چارولیہ(مٹیریل پلانر’یمنار کمپیکٹ‘ کمپنی، جرمنی)
تعارف: مدنی ہائی اسکول جوگیشوری   سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے دسویں میں تقریباً ۹۵؍ فیصد مارکس حاصل کیا اور اسکول ٹاپ کیا۔  پاٹکر کالج سے ایچ ایس سی کیا اور ۹۳؍ پرسنٹائل کے ساتھ ’جی ایڈوانس‘  میں کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں  ڈی جے سنگھوی کالج  سے میکانیکل انجینئرنگ میں بی ای کیا۔اس کے بعد وہ جرمنی  چلے گئے اور ایڈوانس مینوفیکچرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ فی الحال ان دنوں وہیں جرمنی کی ایک بڑی کمپنی میں بطور’ مٹیریل پلانر‘ اپنی خدمات انجام دےرہے ہیں۔’’ یہ بہت مشکل کام ہے کہ میں کسی ایک ٹیچر کا نام لوں۔ مجھے یہاں تک پہنچانے میں آل زہرہ مس، عامر انصاری  اور مرحوم  مختار سر کا بھی بہت اہم کردار ہے۔  اگر میں آل زہرہ مس کی بات کروں تو ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ صرف اپنا مضمون نہیں پڑھاتی تھیں بلکہ طلبہ کی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کی شخصیت سازی پراپنی پوری توانائی صرف کردیتی تھیں۔انہوں نے مجھے ہر قسم کے چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کا ہنر سکھایا۔ وہ کہتی تھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو تم ٹھان لو اور نہ کرسکو۔ یہ ان کی حوصلہ افزائی تھی کہ میں تقریری مقابلوں کے ساتھ ہی حامد اقبال صدیقی کے کوئز مقابلوں میں بھی شریک ہوتا تھا اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہتا تھا۔ ان مقابلوں میں ، میں پانچویں سے دسویں جماعت تک برابر حصہ لیتا رہا۔اس کے ساتھ ہی وہ میری ایس ایس سی کی تیاریوں پر بھی نظر رکھتی تھیں۔   انہوں نے مجھے نصابی سرگرمیوں کے دائرے سے  باہرنکالا اوربتایا کہ دنیا بہت وسیع ہے، اسے دیکھو، سمجھو، پڑھو اورآگے بڑھو۔‘‘
’’ میں خودکو اس قابل نہیں سمجھتی کہ میں کسی کا آئیڈیل بنوں کیونکہ میں ابھی خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ میری کون سی خوبی  ہے جو میرے طلبہ کو پسند آتی  ہے، لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ امانت کے ساتھ خیانت نہیں کرنا  ہے اور پوری ایمانداری سے اسے ادا کرنا ہے،  جو مجھ پر واجب ہے۔ مجھ سے جتنی بھی محنت ہوسکتی  ہے ، میں اپنے طلبہ کیلئے کرتی ہوں۔میں انہیں اپنے بچوں کی طرح سمجھتی ہوں اسلئے صرف تعلیمی ہی نہیں بلکہ ان کے دوسرے مسائل کا حل بھی تلاش کرتی ہوں۔‘‘
  آل زہرہ (مدنی ہائی اسکول، جوگیشوری، ممبئی)
’’میں ایک پتھر تھا، فہیم سر نے تراش کر مجھے ہیرا بنا دیا‘‘
ڈاکٹرشکیل شیخ(کارڈیولوجسٹ ، انٹرنیشنل کارڈیالوجسٹ  اینڈ سابق اسسٹنٹ پروفیسر جے جے اسپتال)
تعارف:۱۲؍ ویں تک اردو میڈیم سے نیشنل ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ، کلیان سےتعلیم حاصل کی۔ایم بی بی ایس کیلئے انٹرنس امتحان میں مہاراشٹر میں ۱۹؍واں رینک آیا،اس کے بعد ’کے ای ایم اسپتال ، ممبئی‘ میں داخل ہوئے۔ایم ڈی کے انٹرنس میں مہاراشٹر میں ۲۱؍واں رینک آیا  اور ڈی ایم کے قومی سطح کے انٹرنس میں ۸؍ واں رینک حاصل کیا۔ کارڈیولوجی کے شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جے جے اسپتال میں  اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے اور اب کلیان میں اپنا کلینک شروع کیا ہے۔’’  ہائی اسکول اور جونیئر کالج میں مجھے کئی اچھے اساتذہ ملے جن میں نورالدین سر، رفعت میڈم اور فہیم سر کا نام قابل ذکر ہے۔فہیم سر فزکس پڑھاتے تھے۔ یہ ایک مشکل مضمون تسلیم کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اسے اتنا آسان کرکے پڑھایا کہ وہ آج بھی مجھے بہت کام آتا ہے۔ فہیم سر صرف ایک ٹیچر نہیں تھے بلکہ وہ مجھے  اور میری طرح دوسرے طلبہ کو اپنے بیٹے کی طرح خیال رکھتے تھے  اور جب تک ’ڈاؤٹ کلیئر‘ نہیں ہوجاتے تھے، وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کی ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ طلبہ کی مخفی صلاحیتوں کو پہچان لیتے تھے اور  اس پر خوب محنت کرتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ وقت اوردن کا خیال نہیں کرتے تھے بلکہ چھٹیوں میں روک کر پڑھاتے تھے  اور اکثر طلبہ کے گھر بھی چلے جاتے تھے۔میرے کریئر سے متعلق انہوں نے مجھ سے گفتگوکرنے کے بعد میرے والد صاحب سے بھی ملاقات کی اور بتایا کہ اس کا رجحان طب کی جانب ہے،اسلئے اس پر فوکس کرو۔ میں ایک پتھر تھا، انہوں نے تراش کر ہیرا بنا دیا۔‘‘
’’ طلبہ کو پڑھاتے ہوئے  ہماری کوشش ہوتی تھی کہ وہ چیزیں جو ہمیں میسر نہیں ہوئیں، وہ ہم اپنے طلبہ کو فراہم کریں، اسلئے ہم طلبہ کو سمجھانے پر کافی محنت کرتے تھے۔ ہم نے تدریس کو کبھی ملازمت نہیںسمجھا بلکہ ایک ایسی ذمہ داری سمجھتے ہیں جو ہمیں خالق کائنات کی جانب سے ودیعت کی گئی ہے۔  یہ میرا معمول کل بھی تھا اور آج بھی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر طلبہ ہم سے مایوس نہ ہوں۔ آج جب ہم انہیں کامیاب دیکھتے ہیں تواتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنا کہ کسی باپ کو اپنے بیٹے کی کامیابی پر ہوسکتی ہے۔‘‘
 سید فہیم الدین مظہر الدین (نیشنل اردو ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ،کلیان)
’’ونایک مورے سر نے میری بنیاد مضبوط کی ہے جس کا مجھے آج بہت فائدہ مل رہا ہے‘‘
کیف صدیقی (ڈائریکٹر سیلس ، اسکریبر فوڈس فار انڈیا)
تعارف:انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل انہوں نے ممبئی یونیورسٹی  سے الیکٹرانکس انجینئرنگ میں بی ای کیا تھا۔  ابتدائی تعلیم سینٹ زویئرس اسکول، پوئی سے حاصل کی تھی۔ انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن کیلئے پوسٹ گریجویشن کے انٹرنس سے متعلق بیشتر مقابلہ جاتی امتحانات جیسے سی اے ٹی، ایکس اے ٹی اور جے ایم  ای ٹی  میں ۹۹؍ پرسنٹائل کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔ فی الوقت امریکہ کی مشہور کمپنی ’اسکریبر فوڈس‘ میںہندوستان کیلئے بطور ڈائریکٹر سیلس اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈیری سے متعلق کمپنیوںمیں اسے  دنیا کی ٹاپ ۲۰؍ کمپنیوں میں جگہ حاصل ہے۔’’ میں شروع ہی سے ایک ذہین طالب علم تصور کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے ۹؍ ویں جماعت میں ، میں ریاضی میں فیل ہوگیا۔ یہ میرے لئے بہت بڑا سیٹ بیک تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں ریاضی میں کمزور تھا لیکن وہ کچھ حالات ہی ایسے تھے ، جس کی وجہ سے میں ناکام ہوا تھا۔ ایسے میں ونایک مورے سر سامنے آئے جو مجھے ریاضی پڑھاتے تھے۔  انہوں نے نہ صرف اس بات کو یقینی بنایا کہ ریاضی کے وہ پیچ و خم مجھ پر پوری طرح سے واضح ہوجائیں بلکہ مجھے زندگی کے کچھ بڑے سبق بھی سکھائے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ناکامی کوئی ناکامی نہیں ہے اور مجھے اس ناکامی کو خاطر میں بھی نہیں لانا ہے۔ انہوں نے مجھ پر صحیح رویہ، محنت، استقامت، صبر اور اعتماد کی اہمیت آشکار کی اور بتایا کہ ان باتوں پر توجہ دو، یہ تمہیں زندگی میں بہت آگے لے جائیں گی اور آج مجھے ان کا دیا ہوا وہ سبق بہت کام آرہا ہے۔‘‘
’’میں نے کچھ نیا نہیں کیا بلکہ وہی کیا جو میری ذمہ داری تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ذمہ داری ہم تمام اساتذہ کی ہے کہ ہم طلبہ کو صرف کتابوں اور اسباق تک محدود نہ رکھیں اور صرف انہی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ میرے اسٹوڈنٹس کو اور کیا کیا پریشانیاں ہیں۔ ہم صرف ٹیچر نہیں ہیں بلکہ اپنے اسٹوڈنٹس کے گارجین بھی ہیں۔ میرے خیال سے ایسا کرنے والے اساتذہ ہی کو رات میں چین کی نیند سونے کا حق ہے۔‘‘
ونایک مورے ( سبکدوش ٹیچر،سینٹ زویئرس کالج، پوائی)
’’آج میں جو کچھ بھی ہوں، اس میں اُرمیلا مس کا بڑا ہاتھ ہے، قدم قدم پر انہوں نے رہنمائی کی ہے‘‘
تبسم ایچ ملک (نیوز ریڈر، ڈی ڈی نیوز، ممبئی)
تعارف:چارلس ہائی  اسکول سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نےسینٹ میری جونیئر کالج سے ایچ ایس سی کیا۔ چیتنا کالج، باندرہ سے بی کام کرکے بعد ممبئی یونیورسٹی میں گروارے انسٹی ٹیوٹ سے  ماس کمیونی کیشن اینڈ جرنلزم کا کورس کیا۔ فی الوقت ممبئی دوردرشن سے وابستہ ہیں جہاں نیوز  ریڈنگ اور رپورٹنگ کے علاوہ   سوشل میڈیا، مارکیٹنگ اورکنٹینٹ منیجر کے طورپر بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں مراٹھی سے ہندی اور ہندی سے انگریزی میں اسکرپٹ ٹرانسلیشن کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں۔  جرنلزم میں انہیں اب تک کئی ایوارڈ مل چکے ہیں جن میں ’یونائیٹڈ نیشنس یونیورسٹی فار گلوبل پیس‘کی جانب سے’ایف ایم بی اے ایف میڈیا ایوارڈ‘ کا نام قابل ذکر ہے۔’’   میں نے اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں ہی میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ مجھے ایک روایتی زندگی بسر نہیں کرنی ہے بلکہ ملک و قوم کیلئے کچھ کرنا ہے۔ اس کیلئے میں اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ اعزازی طور پر ایک ’این جی او ‘ سے بھی وابستہ ہوگئی، جہاں میری ملاقات ایک سماجی کارکن ارمیلا سے ہوئی جنہیں اب میں ’ارمیلا دیدی‘ کہتی ہوں اور انہیں ہی اپنی زندگی کی سب سے خاص ٹیچرسمجھتی ہوں۔ انہوں نے قدم قدم پر نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ جہاں ضرورت محسوس ہوئی، انہوں نے رہنمائی بھی کی۔ جہاں تک ملازمت کی بات ہے، یہاں پر بھی میں گزشتہ ۱۰؍ سال سے ’ہیومن انٹرسٹ‘ کی  اسٹوریز کور کررہی ہوں۔‘‘
’’میں اسے ایک بڑی کامیابی سمجھتی ہوں کہ اپنی ذات سے کوئی بھی فرد کچھ سیکھے اور اس سبق کو اپنی عملی زندگی میں استعمال کرے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتی۔
ارمیلا (اکشرا سینٹر، دادر، ممبئی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK