Inquilab Logo

زندگی میں اَدب اور فن کی اہمیت

Updated: January 24, 2021, 6:04 PM IST | Dr.Aftab Ahmed

آج کل کی دنیا میں مہذب معاشرے کی ترتیب اقدار بدل چکی ہے، لہٰذا اب زندگی میں ادب اور فن کی حیثیت اور مقام پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

گزشتہ سو سال سے کچھ اوپر کے عرصے میں ہماری معاشرتی،ثقافتی اور تعلیمی اقدار میں ایسی کایاپلٹ ہوئی ہے کہ زندگی میں ادب اور فن کی اہمیت مشکوک نظروں سے دیکھی جانے لگی ہے۔ پچھلی صدی کے وسط تک تعلیم یافتہ لوگوں کی محفل میں اگر کوئی شخص اس موضوع کو زیربحث لاتا تو لوگ اس شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتے، اس لئے کہ ادب اور فن ہماری معاشرتی زندگی میں ایک ایسا مسلمہ مقام رکھتے تھے کہ ان کی اہمیت جتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ تو وہ اجزائے ترکیبی تھے کہ جن کے بغیر ایک مربوط اور مہذب معاشرے کا تصور ہی ناممکن تھا، لیکن آج کل کی دنیا میں مہذب معاشرے کی ترتیب اقدار بدل چکی ہے، لہٰذا اب زندگی میں ادب اور فن کی حیثیت اور مقام پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔ ہمارے ہاں کے بعض معتبر حلقوں میں یہ خیال بہت عام ہے کہ ادب اور فن بالکل بے کار مشغلے ہیں جو معاشرے کی ترقی میں حائل ہیں، ان میں وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی ایسا عملی کام کرنا چاہئے جس سے ملک و ملت کا فائدہ ہو۔ ہمارے ہاں اس نقطۂ نظر کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ بدقسمتی سے اردو کے کلاسیکی ادب کے عروج کا زمانہ ہی برصغیر میں مغل سلطنت کے زوال کا زمانہ ہے لہٰذا یہ طے کرلیا گیا کہ ہو نہ ہو شعر و ادب اور دیگر فنون لطیفہ سے  وابستگی ہی مغلوں کے سیاسی زوال کا باعث بنی تھی، حالانکہ دنیا میں ادب اور فن کی تاریخ سے یہ با ت ثابت نہیں ہوتی۔ یونان قدیم اور رومۃ الکبریٰ میں ادب اور فن کے شاہکار یونانِ قدیم اور رومۃ الکبریٰ کے عہد زریں میں تخلیق ہوئے تھے۔ اسی طرح انگلستان کے عظیم شاعر اور تمثیل نگار شیکسپئر اور مارلو انگلستان کے عہد زریں یعنی سولہویں صدی میں الزبتھ اول کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ زیادہ صحیح بات تو یہ ہے کہ ادب اور فن نہ کسی قوم کے عروج کا باعث بنتے ہیں نہ زوال کا۔ یہ تو فقط عروج و زوال کی تاریخی حقیقتوں کی عکاسی کرتے ہیں چنانچہ اردو کلاسیکی ادب بھی برصغیر میں مسلمانوں کی آخری سلطنت کی شکست و ریخت کے عہد کی یادگار ہے۔ سلطنت کے زوال سے ادب کا کوئی تعلق نہیں۔
 اس بحث سے ذرا آگے بڑھئے اور ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالئے کہ آخر یہ ادب اور فن ہیں کیا چیز؟  بات بہت دور تک پہنچتی ہے یعنی اس زمانے تک جب انسان کی تخلیقی قوت بیدار ہوئی اور اس نے جنگل کا قانون ترک کرکے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کی تسکین و تکمیل کے لئے ایسے طور طریقے وضع کرنے شروع کئے جن میں ایک نظم پایا جاتا تھا۔ غاروں اور گھپاؤں سے نکل کر رہنے کے لئے مٹی کے گھروندے بنائے اور کھانے پینے کے لئے برتن، پھر اپنی اندرونی کیفیتوں کے اظہار اور اپنے احساس ترتیب و حسن کی بدولت اُن کوششوں کی داغ بیل ڈالی جو ہزاروں سال گزرنے کے بعد موسیقی ، رقص، مجسمہ سازی، مصوری وغیرہ کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہیں، اور جنہیں ہم فنونِ لطیفہ کے مجموعی نام سے یاد کرتے ہیں۔ ادب کی سرگزشت یہ ہے کہ انسان نے روزمرہ کی زندگی میں افہام و تفہیم کے لئے زبان ایجاد کی ، جب اسے یہ ذریعۂ اظہار مل گیا تو اس کے جذبات و  تصورات ایک وجدانی اور داخلی شدت کے زیراثر کلام موزوں کے سانچے میں ڈھلنے لگے ۔ گویا شاعری کی ابتداء ہوئی ، پھر اس کے بعد ادبی نثر پیدا ہوئی۔
 مختصر یہ کہ مٹی کے گھروندوں کی تعمیر سے لے کر ادب اور فن کی تخلیق تک انسان اپنی دو بنیادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ایک صلاحیت کو عام طور پر عقل کا نام دیا جاتا ہے اور دوسری کو وجدان کا۔ ان دونوں صلاحیتوں کی پشتیبان انسان کی وہ تخلیقی  قوت ہے جو اسے فطرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے اور جو تہذیبی عمل کی روح ہے۔ عقل اور اس کے متعلقات سے انسان نے اسی کرۂ ارض پر خارجی دنیا یعنی اپنے ماحول کو اپنی زندگی کیلئے سازگار بنانے کا کام لیا اور وجدانی صلاحیت اور اس کے متعلقات کی مدد سے ادب اور فن کی تخلیق کی اور اس طرح گویا اپنی داخلی دنیا کی واردات اپنی ذات اور شعور و آگہی کے انکشاف و اظہار کے  وسائل فراہم کئے۔ ایک انسان کی داخلی واردات، جذبہ اور تخیل کی آمیزش کے ساتھ جب ایک نظم و ضبط کے ماتحت ایک مخصوص ہیئت میں اظہار پاتی ہے تو یہ اظہار دوسرے انسانوں کو لذت و فرحت بخشتا ہے اور ان کے احساس حسن اور ذوق جمال کو تسکین پہنچاتا ہے۔ یہ ادب اور فن کا جمالیاتی پہلو ہے جس کےبغیر ادب اور فن کا وجود ہی ممکن نہیں۔ اور یہی وہ پہلو ہے جو ادب اور فن کو فلسفہ اور سائنس اور اسی قسم کے دوسرے اُن تمام علوم سے ممیز کرتا ہے جنہیں انسان نے اپنی دوسری صلاحیت یعنی عقل و خرد کی مدد سے حاصل کیا اور فروغ دیا ہے۔n 
( ’نقوش‘ میں شائع ہونے والے طویل مضمون سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK