اردو ادب ، اپنی ہزارسال سے کم عرصے کی تاریخ میں بھی اس نوع کے کسی بھی ادبی رجحان سے لاتعلق نہیں رہا۔ جدید اور جدیدتر ادبی رویوں میں وجودیت کا معاملہ ہو، اشتراکیت کا موضوع ہو، تاثیریت کی بات ہو یا اظہاریت کا رجحان ہو، اردو کے گزشتہ نصف صدی کے ادب میں ان تمام رجحانات کی نشاندہی بہ آسانی کی جاسکتی ہے۔ یہ اردو ادب کا وہ امتیاز ہے جس کے باعث ہندوستان کی علاقائی زبانوں کے مابین اردو نے عالمی اثرپزیری کے سلسلے میں ہمیشہ اپنا امتیاز نمایاں رکھا ہے۔
اردو زبان کی تاریخ ہزار سال سے بھی کم ہے مگر یہ زبان لوگوں میں کافی مقبول ہے۔ نئی دنیا
اردو زبان و ادب نے جس طرح اپنے گرد و پیش کی زبانوں اور ادبیات کو اپنے مخصوص رویوں اور رجحانات سے متاثر کیا ہے اس سے کہیں زیادہ اردو کے ادب نے عالمی اور مقامی رجحانات سے متوازی اور متوازن انداز میں اثرات بھی قبول کئے ہیں۔ چونکہ ردّ و قبول کا یہ سلسلہ مختلف ادبیات کے درمیان چلتا رہتا ہے اس لئے اردو ادب نے بھی اپنے آپ کو عالمی ادب کے رویوں سے کبھی الگ نہیں رکھا۔ دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں کے ادب میں قدرے تقدیم و تاخیر کے ساتھ بعض رجحانات کا یکساں طور پر نفوذ اور دفور نظر آتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی زبانوں میں ادبی میلانات کو کسی بڑے فکری رجحان یا فلسفیانہ رویے کے پس منظر میں نمایاں ہونے کا موقع کم ملا ہے تاہم مغربی زبانوں میں جو ادبی رجحانات امتدادِ وقت کے ساتھ کارفرما رہے ہیں ان کے اثرات تاخیر سے ہی سہی مگر مشرقی زبانوں پر بھی ضرور مرتسم ہوتے رہے۔ مثال کے طور پر ہم مغرب کے تناظر میں کلاسیکی رجحان کا زمانہ عموماً نشاۃ ثانیہ سے پہلے کے ادوار میں متعین کرتے ہیں مگر اس اصطلاح سے بلند ہو کر اگرگفتگو کیجئے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ازمنۂ قدیم میں جب سماج اور معاشرت کا شیرازہ بکھرا نہیں تھا اور نمایاں انسانی اور اخلاقی اقدار پر سماجی اداروں کا مکمل اتفاق پایا جاتا تھا ، ان زمانوں میں پیش کئے جانے والے ادب کو بلاتفریق زبان و ادب کلاسیکی ادب سے موسوم کیا جاتا تھا۔ تاہم ایک بات اب بھی وضاحت طلب رہ جاتی ہے کہ موضوع، مواد اور مضمون کے اعتبار سے اس نوع کی یکسانیت اور یک جہتی کو آیا محض فکری رویے کا نام دیا جاسکتا ہے یا پھر اس یکسانیت اور یکجہتی کے مظاہر کو ہم اس زمانے میں تخلیق ہونے والے ادب کی پیشکش، زبان و بیان ، سلیقۂ اظہار اور فنی در و بست میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں؟ اگر اس پہلو پر غور کیجئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ازمنۂ قدیم کی ادبیات میں جس طرح کی اجتماعی اقداریت موضوع اور مضامین میں ملتی ہے ، اسی نوع کا اجتماعی اتفاق اس بات میں بھی ملتا ہے کہ کلاسیکی عہد کے ادب میں زبان و بیان کو تزک و احتشام کا حامل ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ اندازہ لگانے میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ معاملہ خواہ صنائع اور بدائع کا ہو یا فنی تدابیر کو اختیار کرنے کا، یا پھر ہیئت کے معاملے میں روایتی ضوابط اور اصولوں کی پابندی کا، بیشتر کلاسیکی ادبی سرمائے کے پس منظر میں ایک منظم، متحد اور منضبط اندازِ فکر کے حامل سماج کی موجودگی کا ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ چونکہ یہی اجتماعیت قدیم کلاسیکی عہد کی شیرازہ بند اقدار کا طرۂ امتیاز رہا ہے اس لئے رومانیت، انفرادیت یا بعد کے دوسرے ادبی میلانات کے مقابلے میں کلاسیکیت کا طرۂ امتیاز ان ہی عناصر کو تصور کیا جاتا ہے۔
عالمی ادب سے اردو کی اثرپزیری سے متعلق یہ بات محض کلاسیکی ادبی رجحان کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی بلکہ بعد کے زمانے میں اس اثرپزیری میں اور بھی اضافہ ہوتا رہا۔ تفصیل سے گریز بھی کیا جائے تب بھی بعض نکات توجہ طلب معلوم ہوتے ہیں۔ بات خواہ رومانیت کی ہو، عبوری دور میں تخلیق کردہ ادب کی ہو یا پھر حقیقت پسندی ، فطرت پسندی یا تجربہ پسندی کی ، جب جب ادب میں اس نوع کے کسی ادبی رجحان کو فروغ ملا ہے تو ایک طرف اس کا رشتہ کسی نہ کسی فکری اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے جا ملتا ہے اور دوسری طرف دنیا کے نسبتاً غیرترقی یافتہ معاشروں میں تخلیق کردہ ادب بھی ان ادبی میلان سے اپنا رشتہ استوار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو ادب ، اپنی ہزارسال سے کم عرصے کی تاریخ میں بھی اس نوع کے کسی بھی ادبی رجحان سے لاتعلق نہیں رہا۔ جدید اور جدیدتر ادبی رویوں میں وجودیت کا معاملہ ہو، اشتراکیت کا موضوع ہو، تاثیریت کی بات ہو یا اظہاریت کا رجحان ہو، اردو کے گزشتہ نصف صدی کے ادب میں ان تمام رجحانات کی نشاندہی بہ آسانی کی جاسکتی ہے۔ یہ اردو ادب کا وہ امتیاز ہے جس کے باعث ہندوستان کی علاقائی زبانوں کے مابین اردو نے عالمی اثرپزیدی کے سلسلے میں ہمیشہ اپنا امتیاز نمایاں رکھا ہے۔
چنانچہ عالمی ادب میں خواہ Realism, Romanticism, Classiciism اور Naturalism کے رجحانات رہے ہوں یا پھر بعد کے زمانے میں Symbolisim ، Expressionism اور Impressionism کا معاملہ رہا ہو، اردو ادب کی مختلف اصناف پر ان رجحانات کی کارفرمائی کا ضرور مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو رہی عام ادبی رجحانات کی بات ، جہاں تک سوال نئی تھیوری کے نام سے ساختیات (Structuralism) ، مابعد ساختیات (Post- Structuralism) اور ان کے رجحانات کے زیراثر بین المتونیت (Intertextuality) ، نئی تاریخیت (New Historicism) ، علم شرح و تعبیر اور تانیثیت جیسے ان موضوعات کا ہے جو گزشتہ ربع صدی سے اردو میں خاص سرگرمی سے زیربحث ہیں یا مابعد جدیدیت (Post-Modernism) کے مباحث جنہوں نے آج اردو ادب کے بیشتر رویوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، یہ تمام اثرات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اردو کا ادبی منظرنامہ کبھی بھی منجمد اور فکری طور پر غیرمتحرک نہیں رہا۔ اردو نے ہمیشہ ایک احساس اور روشن خیال زبان ہونے کا ثبوت دیا ہے اور عالمی سطح کے ادبی مباحث سے ہمیشہ آنکھیں چار کرنے کی کوشش کی ہے۔کہنے کو تو یہ مباحث بہت تفصیل طلب ہیں مگر عالمی ادب سے اردو کی اثرپزیری کا سلسلہ ہر دور میں دراز رہا ہے جس کی ایک جھلک متذکرہ معروضات میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ادب کن کن سطحوں پر عالمی ادب سے ہم آہنگ رہنے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔