بحث کے بعد ہائی کورٹ کی مذکورہ بینچ نے کہا کہ ۵؍ سے ۱۴؍ سال تک کے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو ان کا بنیادی حق بنا دیا گیا ہے ایسے میں حکومت اور اس کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اسکولوں میں تمام بنیادی سہولتیں مہیا کرے۔
EPAPER
Updated: May 19, 2023, 10:40 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai
بحث کے بعد ہائی کورٹ کی مذکورہ بینچ نے کہا کہ ۵؍ سے ۱۴؍ سال تک کے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو ان کا بنیادی حق بنا دیا گیا ہے ایسے میں حکومت اور اس کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اسکولوں میں تمام بنیادی سہولتیں مہیا کرے۔
اُردو کے تعلیمی، ادبی اور تہذیبی ادارے طرح طرح کی مشکلوں سے دو چار ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ اُردو کا کوئی اجتماع یا محفل منعقد کی جائے تو درجنوں لوگوں کو شکایت ہو جاتی ہے کہ ان کے نام کیوں ہیں اور میرا نام کیوں نہیں ہے؟ اسکے بعد شکایتیں سازشوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اُردو کے تعلیمی، تہذیبی اور ادبی ادارے بھی بند ہوتے جا رہے ہیں اور دور رس نتائج کے حامل پروگرام بھی۔ یہ تاثر غلط نہیں ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب گرمی بہت بڑھ جاتی ہے تو باران رحمت جوش میں آجاتی ہے۔ اس کی مثال گزشتہ دنوں ایک بار پھر سامنے آئی جب ایڈوکیٹ حنیف شیخ نے بامبے ہائی کورٹ کی ایک بینچ کو جس میں کارگزار چیف جسٹس ایس وی گنگا پور والا اور جسٹس سندیپ مار نے شامل ہیں، بتایا کہ پونے کے جادھو واڑی علاقے کے ایک اسکول میں بچوں کو بیٹھنے کیلئے بینچ بھی نہیں ہے۔ یہاں ایک کلاس میں ۳۰۰؍ بچوں کو ایک ساتھ بٹھایا جاتا ہے۔ انہوں نے اُردو اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری نہ کئے جانے کی بھی شکایت کی۔ بحث کے بعد ہائی کورٹ کی مذکورہ بینچ نے کہا کہ ۵؍ سے ۱۴؍ سال تک کے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو ان کا بنیادی حق بنا دیا گیا ہے ایسے میں حکومت اور اس کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اسکولوں میں تمام بنیادی سہولتیں مہیا کرے۔ بینچ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی طرف سے اُردو اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کیلئے اتّر پورٹل تیار نہیں کیا جاتا ہے تو حکومت فوری طور پر اس سمت قدم اٹھائے۔ بینچ نے یہ بھی کہا کہ ایجوکیشن افسر جو اسکولوں کے نگراں ہیں یہ بھی دیکھیں کہ اُردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں کیا کیا سہولتیں ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ ایجوکیشن افسر کی ہی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ اُردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تقرری ہوتی رہے۔
قابل مبارکباد ہیں بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان اور ایڈوکیٹ حنیف شیخ مگر افسوس کا مقام ہے کہ یہ اہم خبر ہم تک کسی اُردو اخبار، پورٹل یا یوٹیوب سے نہیں ایک ہندی اخبار کے ذریعہ پہنچی ہے (نوبھارت ٹائمز، ممبئی، ۱۰؍ مئی ۲۰۲۳ء)۔ اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے روپیہ دے کر اپنا اکرام کروانے یا روپیہ دے کر اُردو محفلوں کے ڈائس پر جگہ حاصل کرنے والوں میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ حکومت و انتظامیہ سے رجوع کرتا یا وزیر تعلیم سے کوئی ایسا حکم دلوانے میں کامیابی حاصل کرتا جس سے اُردو اسکولوں اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کا مقدر سنورتا۔ جب ایک ایڈوکیٹ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو سرکاری وکیل نے اطلاع دی یا وعدہ کیا کہ ہر اسکول میں ضرورت کے مطابق تقرریاں ہوں گی اور جون ۲۰۲۳ء تک جادھو واڑی اسکول کو نئی عمارت میں منتقل کر دیا جائے گا۔ امید تو یہی کی جانی چاہئے کہ ہائی کورٹ میں سرکاری وکیل کی یقین دہانی کا پاس رکھا جائے گا اور دوسرے اسکولوں کے ساتھ اُردو اسکولوں کو بھی تمام بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ اساتذہ کی تقرریاں بھی کی جائیں گی۔ مگر اس امید کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُردو دوست صاحبان خاص طور سے اُردو اسکولوں کے اساتذہ یہ دیکھتے رہیں کہ کسی بھی اُردو اسکول میں کوئی مسئلہ حل ہونے سے نہ رہ جائے۔ ہائی کورٹ کی یاددہانی یا حکم کی روشنی میں انتظامیہ کو مسلسل بتایا جاتا رہے کہ کہاں کیا کمی یا ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جن اسکولوں میں اساتذہ بھی ہیں اور پورا انفرا اسٹرکچر بھی موجود ہے وہاں یہ دیکھا جاتا رہے کہ اساتذہ فرض شناس ہیں یا نہیں؟ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری/ میونسپل اسکولوں یا پیڑوں کی چھاؤں میں چلنے والے مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ بھی تاریخ مرتب کیا کرتے تھے کہ ان کے اساتذہ باصلاحیت، خدا پرست اور خدا ترس تھے حالانکہ ان کو بڑی تنخواہ ملتی تھی نہ ان کے مستقبل کی کوئی ضمانت یا پنشن تھی۔ آج سرکاری اور بلدیہ کے اسکولوں کے اساتذہ کو بڑی بڑی تنخواہیں ملتی ہیں، پنشن کی ضمانت بھی ہے مگر یہاں جو حال ہے یا اساتذہ جس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے والدین اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں داخل کرنا پسند نہیں کرتے، حالانکہ ان کی مالی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ وہ مہنگے اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ اس کالم میں بار بار لکھا جاچکا ہے کہ مہنگی تعلیم کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معیاری ہوگی۔ ہاں اسکولوں کے ماحول، سرگرمیوں اور اساتذہ کی ہدایتوں کا بچوں پر اثر ضرور پڑتا ہے۔ شاعروں، ادیبوں اور تخلیقی کاموں میں لگے ہوئے لوگوں کے بھی بعض فرائض ہیں اور اگر وہ ایمانداری سے یہ فرائض انجام دیں تو ایک ذہنی انقلاب پیدا ہوسکتا ہے مگر یہ صاحبان بھی بیشتر خود پسندی کا ہی مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی گمراہ کن حرکتوں سے بڑی عمر کے لوگ نالاں اور نئی نسل کے بچے دل برداشتہ ہیں۔
وزیراعظم مودی نے بہت صحیح کہا ہے کہ Dominance of English deprived many (ٹائمز آف انڈیا، ممبئی، ۱۳؍ مئی ۲۰۲۳ء) مگر آج تو حال یہ ہے کہ اُردو والوں کو اُردو ہی نہیں آتی۔ اعلیٰ تعلیم دینے والے شعبے کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اسکریپ اگل رہا ہے۔ اس کے لئے انگریزی کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے نہ کسی دوسری زبان کو۔ یہ معاملہ ہے اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے وابستگی کا۔ یہ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی ناپید ہے اور عام لوگوں میں بھی۔ جہاں اچھے پروگرام ہو بھی رہے تھے تو اس کو خوشامدی عناصر اور خوشامد پسند انتظامیہ نے ختم کر دیئے ہیں۔ ایسا وہاں بھی ہو رہا ہے جن کا تعلق حکومت و بلدیہ سے ہے اور وہاں بھی جہاں ’غیرت ملی‘ کے دعویداروں کا قبضہ ہے۔ حکومت نے ان کی رعونت اور بدعنوانی کو لگام دینے کے لئے کئی اقدام کئے ہیں ممکن ہے آئندہ سخت ترین اقدام کئے جائیں، مگر اس عوامی احساس اور اجتماعی غیرت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ سبھی کو مزید کسی گرفت میں آنے سے پہلے ہی فرض شناس بننے کی تلقین کرتی اور تحریک دیتی ہے۔
اس دن کا انتظار ہے جب ارباب اقتدار و ثروت کے ادبی اداروں پر غیر ادبی لوگوں کے مسلط کرنے اور بزرگوں کے قائم کئے ہوئے اداروں کے بند یا غیر فعال کئے جانے کے خلاف کوئی ایڈوکیٹ ہائی کورٹ سے رجوع کرے گا اور جسٹس صاحبان ان اداروں میں نئی روح پھونکنے والی ہدایات جاری کریں گے۔