Inquilab Logo Happiest Places to Work

پاکستان کو اہمیت دینے نہ دینے کا معاملہ

Updated: May 04, 2025, 12:48 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہندپاک تعلقات ہمیشہ ہی سے کشیدہ رہے ہیں ۔ ہندوستان نہیں چاہتا کہ ہائفن کا استعمال کرتے ہوئے اسے بطور اصطلاح پاکستان کے ساتھ جوڑا جائے مگر واقعات اور حالات اسے بار بار اسی اصطلاح میں باندھ دیتے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

۱۹۹۰ء کی دہائی سے لے کر اب تک ہندوستان نے ’’ڈِی ہائفینیشن‘‘ پر اصرار کیا ہے۔ اصطلاح ہے ’’انڈو-پاک۔ ‘‘ یعنی ہندوستان اور پاکستان کو ’’ہائفن‘‘ (خطِ ربط، یا، نشانِ الحاق) کے ساتھ بطور اصطلاح استعمال کرنا۔ دنیا نے اسی طرح جنوبی ایشیا کو دیکھا ہے۔ بیرونی دنیا میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سائے سے جدا نظر نہیں آتے۔ ہندوستان کا دورہ کرنے والے امریکی سفارت کار، جیسے کلنٹن انتظامیہ کے ایک اہلکار رابن رافیل نے تعلقات کو ’متوازن‘ کرنے کیلئے ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا بھی دورہ کیا تھا۔ صدر کلنٹن جب مارچ ۲۰۰۰ء میں ہندوستان آئے تو واپسی پر چند گھنٹوں کیلئے پاکستان میں ٹھہر کر اسلام آباد کو یقین دلایا تھا کہ اسے فراموش نہیں کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے اپنے آپ کو پاکستان سے جوڑے جانے پر ہمیشہ ہی سے ناراضگی ظاہر کی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جہاں سرحد پار سے دہشت گردی ہوتی ہے۔ وہ اپنا مقابلہ مغربی ممالک سے کرتا ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ناکام ملک سمجھتا ہے۔ لیکن دیگر ممالک ہندوستان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ 
دنیا ’’انڈو- پاک‘‘ کی ہائفینیشن پر کئی عشروں سے مرکوز ہے، خاص طور پر ۱۹۹۸ء میں جب اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ہم نے مئی کے وسط میں ایٹمی دھماکے کئے اور پھر نواز شریف کی قیادت میں پاکستان نے ۲۸؍ مئی کو یہی کیا۔ دنیا کو اس خطے میں عدم استحکام پر تشویش تھی اور یہ ۱۹۹۹ء کی کارگل جنگ کے ساتھ بڑھ گئی، حالانکہ دونوں ہی ملکوں نے اسے جنگ کا نام نہیں دیا تھا لیکن اس میں ایک ہزار سے زائد فوجی فوت ہوگئے تھے۔ 
پاکستان اور ہندوستان نے روایتی انداز میں توپ خانوں اور فضائیہ کے ساتھ اِس اَن کہے مفروضے پر جنگ کی کہ جوہری جنگ سے بہرحال کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ دنیا میں پہلی بار ایٹمی ممالک کے درمیان ایسا تصادم دیکھنے میں آیا تھا۔ دونوں طرف کا میڈیا اور عوام اسی طرح کے جنون کے ساتھ متحرک تھے جسے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ دنیا گھبرا گئی اور کلنٹن نے قدم رکھا اور پاکستان کو کارگل سے اپنی افواج واپس بلانے پر مجبور کر دیا۔ 
اس کے بعد دو واقعات ہوئے جنہوں نے انڈو- پاک کے درمیان سے ہائفن (- یہ نشانی) کو ہٹا دیا۔ پہلا واقعہ، ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کا تھا جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان پر امریکی حملے کیلئے کراچی کی ضرورت تھی اور تقریباً تمام ایندھن، گولہ بارود اور امریکی/ نیٹو فوج کو پاکستان کے راستے بھیجے جاتے تھے۔ ۱۹۷۹ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی طرح جنرل پرویز مشرف نے اچانک خود کو قابل قبول پایا اور نواز شریف کے خلاف ان کی بغاوت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حکومت ہند مشرف کو ملنے والی عالمی توجہ سے ابتداء میں بے چین تھی لیکن واجپئی نے اپنی شخصیت کے شایان شان سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس مہم سے دور رہے۔ 
دوسرا واقعہ، ’’انڈیا شائننگ‘‘ ہے۔ یہ اشتہاری مہم اس مفروضے پر شروع کی گئی تھی کہ اقتصادی ترقی کے لحاظ سے ہندوستان اگلا چین ہے۔ ۲۰۰۴ء میں یو پی اے کے وزیر جے رام رمیش نے ’’چِنڈیا‘‘ (چین اور انڈیا کا مرکب) کی اصطلاح اس امید کے ساتھ پیش کی تھی کہ ہندوستان اور چین آگے آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تعاون کر سکتے ہیں۔ ہندوستان شمال مشرق میں اپنے بڑے پڑوسی کی قربت اور شمال مغرب پڑوسی سے دوری چاہتا تھا۔ مگر ’’چنڈیا‘‘ کی اصطلاح رواج نہ پاسکی۔ چین کا شاندار عروج بتا رہا تھا کہ معاشی طور پر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہندوستان نے تعاون کا وعدہ ضرور کیا لیکن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ دوسری جانب، پاکستان کے ساتھ جوڑے جانے پر ہندوستان ناراضگی کا اظہار کرتا رہا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہم اعلیٰ نظر آئیں اور پڑوسیوں سے وابستہ نہ کئے جائیں۔ تاہم، حقیقت یہ تھی، اور ہے کہ پاکستان ہی کے ساتھ کرکٹ میچ میں ہندوستان سب سے زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ 
ہم پاکستان کو بلاوجہ ہی ’’اہمیت‘‘ دے بیٹھتے ہیں جس کی مثال ہمارے طرز عمل سے ملتی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ ہماری ’اسٹریٹجک افیئرز کمیونٹی‘ بشمول ریٹائرڈ فوجی افسران، پاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کیلئے فطری طور پر پُرجوش ہیں جس کا مشاہدہ سوشل میڈیا اور ٹی وی مباحثوں پر کیا جاسکتا ہے جہاں وہ ’’کھلے عام‘‘ اپنے ’’خیالات‘‘ کا اظہار کرتے ہیں۔ جب بات پاکستان کے خلاف متحرک ہونے کی آتی ہے تو اس میں ہماری شرکت پُرجوش ہوتی ہے۔ بیرون ملک مقیم ہندوستانی سفارت خانوں کے باہر طرح طرح کے نعرے لگاتے ہیں اور عجیب وغریب اشارے کرتے ہیں جو کچھ لوگوں کو ناگوار گزرتے ہیں تو بیشتر انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ نہ چاہیں کہ دنیا کی توجہ ہند پاک پر مرکوز ہو، لیکن ہم یقیناً اسی اصطلاح کے آس پاس رہنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ’’ڈی ہائفینیشن‘‘ میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں۔ ہم پاکستان سے اپنے آپ کو علاحدہ کرنے کی کوشش میں اس کے ساتھ مزید مضبوطی سے جڑتے جارہے ہیں۔ 
آنجہانی اسکالر اسٹیفن کوہن نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’’ساختی طور پر، ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات نہایت ناخوشگوار ہیں۔ یہ ایک کلاسک معاملہ ہے جسے مَیں ’’پیرڈ مائناریٹی کونفلکٹ‘‘ کہتا ہوں۔ اس حالت میں ہر فریق دوسرے سے خطرہ اور اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہے، اور مسئلہ حل کرنے کیلئے مذاکرات اور بات چیت سے مزاحمت کرتا ہے۔ دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ وہ بیک وقت ایک دوسرے سے کمزور بھی ہیں اور طاقتور بھی۔ ’پاکستان‘، ہندوستانی سوچ میں گہرائی سے پیوست ہے۔ ‘‘
کوہن کا خیال تھا کہ سری لنکا (سنہالا بمقابلہ تمل) اور مشرق وسطیٰ میں بھی بیشتر ممالک کے تعلقات ایسے ہی ہیں۔ کوہن کا انتقال ۲۰۱۹ء میں ہوا اور دنیا نے کئی برسوں سے ’’ہند-پاک‘‘ کیلئے ہائفن کا استعمال نہیں کیا لیکن اکثر واقعات، ہمیں پاکستان سے منسلک کرنے کی مجبوری پیدا کردیتے ہیں۔ 

pakistan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK