وزارت نےعدالت کے اس فیصلے پراعتراض کیا ہےجس میں مقبوضہ کشمیر کی خاتون کوپاکستان سے واپس لانے کا حکم دیاگیا ہے۔
EPAPER
Updated: July 04, 2025, 1:25 PM IST | Agency | New Delhi
وزارت نےعدالت کے اس فیصلے پراعتراض کیا ہےجس میں مقبوضہ کشمیر کی خاتون کوپاکستان سے واپس لانے کا حکم دیاگیا ہے۔
وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل کی ہے، جس میں مقبوضہ کشمیر جلاوطن ایک خاتون کی واپسی کی ہدایت دی گئی تھی۔ ۶۲؍ سالہ خاتون کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے اپیل میں کہا ہے کہ ’’عدلیہ کو کسی غیر ملکی کو ملک بدر کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر کو کالعدم نہیں کرنا چاہیے۔ ‘‘ وزارت داخلہ نے اپنی اپیل میں استدلال کیا کہ ہائی کورٹ کا حکم آئینی طور پر جائز نہیں ہے کیونکہ اس نے پاکستان میں ہندوستان کے خود مختار علاقے سے باہر عدالتی رٹ کو نافذ کرنے کی ہدایت دی تھی، جہاں سے خاتون کو ملک بدر کیا گیا تھا۔ وزارت نے کہا ’’ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حوالگی کاکوئی معاہدہ، قانونی آلہ یا بین الاقوامی ذمہ داری نہیں ہے جو پاکستان کو اسے ہندوستان واپس کرنے کا پابند کرتی ہے۔ ہندوستان کی حکومت کسی خود مختار ملک کو موجودہ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی غیرشہری کو حوالے کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔‘‘
وزارت نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم ’’قومی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے خلاف ہے، خاص طور پر ایک دشمن ملک کے شہریوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں عدالتی تحمل‘‘۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ’’ایک غیر ملکی شہری ہندوستان میں رہائش یا ہندوستانی شہریت کا حق صرف ہندوستانی شہری سے شادی کی وجہ سے حاصل نہیں کرتا ہے‘‘۔ وزارت داخلہ نے متنبہ کیا کہ اس طرح کا حکم ایک خطرناک نظیر قائم کر سکتا ہے جسے غیر ملکی شہری آرٹیکل۲۲۶؍ کے تحت انفرادی وطن واپسی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پہلگام حملہ ہواتھا اور جموں و کشمیر میں پاکستانیوں کی تلاش شروع کی گئی تھی۔ رخشندہ راشد نام کی ایک۶۲؍ سالہ خاتون، جو تقریباً چار دہائیوں سے طویل مدتی ویزا (ایل ٹی وی) پر ہندوستان میں رہ رہی تھی، کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستانی شہریوں کے خلاف کارروائی کے ایک حصے کے طور پر ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ایل ٹی وی کی توسیع کی درخواست جنوری میں دی گئی تھی لیکن۲۹؍ اپریل کو اسے اٹاری سرحدی چوکی کے ذریعے پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔
ہائی کورٹ نے۶؍ جون ۲۰۲۵ءکے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ’’انسانی حقوق انسانی زندگی کا سب سے مقدس حصہ ہیں، اور اس لیے ایسے حالات ہوتے ہیں جب آئینی عدالت کو کیس کی خوبیوں سے قطع نظر، فوری مداخلت کرنا پڑتی ہے۔‘‘وزارت داخلہ نے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اسے’’قانونی طور پر ناقابل نفاذ اور سفارتی طور پر ناممکن‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ کیس اب قومی سلامتی، امیگریشن پالیسی اور عدالتی مداخلت کے درمیان توازن کے بارے میں ایک اہم بحث کا موضوع بن گیا ہے۔