Inquilab Logo

خواتین کی مقتدریت کا مسئلہ

Updated: March 24, 2023, 10:09 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو غطریس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں ہر ۱۱؍ منٹ پر کسی عورت یا لڑکی کو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا شناسا قتل کر دیتا ہے۔ اس بیان کی دو جہتیںہیں۔ ایک یہ کہ لڑکیوں اور عورتوں کے جنسی استحصال پر ہی اکتفا نہیں کیا جا رہا ہے ان کی جانیں بھی لی جا رہی ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

کون نہیں چاہتا کہ خواتین یعنی ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ’’بااختیار‘‘ ہوں البتہ بااختیار ہونے کا تصور الگ الگ ہے۔ ادھر چند روز کے اخبارات میں بعض خبریں مثلاً یہ کہ ۶۳؍ فیصد خواتین کی ہڈیاں کمزور ہیں نظر سے گزری تو تکلیف ہوئی۔ کچھ اور دیگر مسائل بھی ہیں جو سنجیدگی سے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا سوال لڑکیوں کی شادی کی عمر کا ہے۔ شادی کی عمر ۱۸؍ سال سے بڑھا کر ۲۱؍ سال کرنے کی بات ہوئی تو ایک بڑے طبقے نے سوال اٹھایا کہ لڑکیاں ۱۸؍ سال کی عمر میں ووٹ دے سکتی ہیں، معاہدوں پر دستخط کرسکتی ہیں، اپنی مرضی سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہیں تو شادی کی عمر بڑھانے کا کیا فائدہ؟ راقم الحروف کا مشاہدہ یہ ہے کہ ۱۸؍ سال کی عمر تک کی لڑکیاں جسمانی طور پر یا تعلیمی ڈگری کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہوتیں کہ ’’صحتمند ماں‘‘ یا کسی فن یا شعبۂ علم میں ماہر ہوسکیں اس لئے کم عمری کی شادی نہیں ہونی چاہئے مگر اس کے ساتھ ہی اس کو یہ فکر بھی لاحق ہے کہ اس مہذب سماج میں بھی لڑکیوں کے سن بلوغ تک پہنچنے کے بعد شادی ہونے تک غنڈوں، ذہنی مریضوں اور آوارہ پھرنے والوں سے ہی نہیں پڑوسیوں، قریبی رشتہ داروں، ساتھ پڑھنے یا کام کرنے والوں سے بچانا بھی ضروری ہے۔ لڑکی اگر کمزور یا کمزور طبقات سے تعلق رکھتی ہو تو اس کا لٹ جانے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں کا مزاج الگ ہے۔ یہاں ۱۸؍ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لڑکیاں پانچ بار اسقاط حمل کرا چکی ہوتی ہیں اس لئے جب یہاں اسقاط حمل پر پابندی عائد کی گئی تو مظاہرے ہونے شروع ہوئے اور خود امریکہ کے سپریم کورٹ کی ایک ۹؍ رکنی بینچ کے سات ججوں نے فیصلہ دیدیا کہ اسقاط حمل کرانا لڑکیوں یا عورتوں کے ذاتی مقتدریت کی ایک کڑی ہے اور پھر بعض شرائط کے ساتھ اسقاط حمل پر لگی پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیدیا۔ امریکہ اور ہندوستان کے رہنے والوں میں بہت فرق ہے۔ ہندوستان میں تو بن بیاہی بیٹی کے ماں بننے یا اسقاط حمل کرانے کی خبر سے بھی کتنے ماں باپ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود رحم مادر میں بھی بچے کو مار ڈالنے، بچے کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دینے یا کسی ویران جگہ نومولود کو چھوڑ دینے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ اس ملک میں ایسے لوگ سرگرم ہیں جو معصوم لڑکیوں کو جھانسہ دے کر ماں بنانے اور پھر در در بھٹکنے کے لئے چھوڑ دینے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔
 بعض لوگ اپنی ناجائز اور ظالمانہ حرکتوں کو جائز بنانے کیلئے قانون کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ کیرالا ہائی کورٹ نے ایک اچھا فیصلہ سنایا۔ معاملہ یہ تھا کہ شوہر نے اپنی بیوی کے ساتھ ۹؍ سال تک ازدواجی تعلق قائم رکھا۔ تین بیٹیاں پیدا ہوئی اس کے بعد اس کے کسی اور خاتون یا لڑکی سے تعلقات قائم ہوگئے اور اس نے عدالت سے مدد لینے اور پہلی بیوی کے علاوہ تینوں بیٹیوں سے بھی نجات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اس کی درخواست مسترد کر دی بلکہ یہ بھی کہا کہ عدالتیں ناجائز حرکتیں کرنے والوں کی مدد کرکے ان کے غلط کاموں کو جائز نہیں بنا سکتیں۔ کام کرنے والی خواتین کے تحفظ کیلئے تو کورٹ نے کئی ہدایات دی ہیں۔ فوج میں کام کرنے والی خواتین کی بھی شکایات ہیں اور سخت تبصرے کئے ہیں۔
 دنیا میں سب سے عظیم مرتبہ ماں کا ہوتا ہے مگر اب ایسے واقعات رونما ہونے کے ساتھ ایسے الفاظ بھی استعمال کئے جا رہے ہیں جو لفظ ماں کے تقدس کو مجروح کرتے ہیں مثلاً پہلے ماں، دائی ماں اور سوتیلی ماں جیسے بھی الفاظ سننے میں آتے تھے اور ماں و دائی ماں کے الفاظ تو کانوں میں رس گھولتے بھی تھے بعض سوتیلی ماؤں کی مثالیں بھی سامنے آتی تھیں جنہوں نے سوتیلے بچوں سے سگی ماؤں سے زیادہ شفقت کی ہوتی تھی اب Lactating Mother کا لفظ یعنی دائی ماں کے بجائے آیا کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ Foster Mother پرورش اور نگہداشت کرنے والی عورت کو کہتے ہیں۔ Genetic Mother وہ ہے جس کا علم توالد و تناسل سے ماں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح Biological Mother حیاتیاتی ماں اور Surrogate Mother یعنی قائم مقام ماں کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان لفظوں سے طرز فکر اور طرز زندگی میں فرق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زبان و لغت کو نئے نئے الفاظ تو ملے ہیں سائنسی ایجادات نے بھی انسان کو حیران کر دیا ہے مگر ماں اور بیٹے کے رشتے پر زوال آیا ہے۔ انسان دولت کمانے کیلئے ماں کی ممتا پر بھی ڈاکہ ڈال رہا ہے اور رشتے کے تقدس پر بھی۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو غطریس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں ہر ۱۱؍ منٹ پر کسی عورت یا لڑکی کو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا شناسا قتل کر دیتا ہے۔ اس بیان کی دو جہتیںہیں۔ ایک یہ کہ لڑکیوں اور عورتوں کے جنسی استحصال پر ہی اکتفا نہیں کیا جا رہا ہے ان کی جانیں بھی لی جا رہی ہیں اور یہ سب ہندوستان یا کسی ترقی پذیر ملک میں ہی نہیں کیا جا رہا ہے ایسا کرنے والوں میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی مقتدریت اور ان کے حقوق کی بازیابی و بحالی کے نعروں کے باوجود لڑکیوں اور عورتوں پر بیماریوں اور بری عادتوں کا بھی قہر ٹوٹ رہا ہے اور غائب کئے جانے، جنسی استحصال کا شکار بنائے جانے یا قتل کئے جانے کا بھی۔
 بچوں کو گود لینے اور بے سہارا عورتوں کو آباد کرنے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ بیشک معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے مگر ان ناموں پر بھی جو فریب کئے جاتے رہے ہیں ان کا پردہ بھی فاش ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متمول اور ترقی یافتہ ملکوں سے بھی عورتیں دوسرے ملکوں کا اس لئے رخ کر رہی ہیں کہ وہاں انہیں زیادہ آسائش مہیا ہوتی ہے۔ جنگ زدہ روس سے پانچ ہزار حاملہ خواتین اس لئے ارجنٹائنا گئی ہیں کہ ان کے ہونے والے بچوں کو زیادہ آسائشیں اور سہولتیں حاصل ہوں۔ ان لوگوں کو بھی طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا ہے جن کا شمار خاتون نما مردوں یا تیسری مخلوق میں ہوتا ہے۔ ان کے مسائل کا حل پاکیزہ سوچ اور پاکیزہ طرز عمل سے ہی کیا جاسکتا ہے مگر ان کے ساتھ جو تضحیک آمیز رویہ روا رکھا جاتا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ ان تمام مثالوں سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ خواتین کی مقتدریت اور حقوق کی بازیابی اور بحالی کا مسئلہ جس نے تانیثیت کی تحریک کو جنم دیا ہے وقت کے ساتھ سنگین تر یا پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے شاید اس لئے کہ خواتین کی مقتدریت کے نام پر مرد اور عورت میں رقابت اور کشمکش پیدا کی جا رہی ہے۔ اس کشمش کی زد میں وہ بھی آ رہے ہیں جن کا شمار مردوں میں ہے نہ عورتوں میں۔

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK