دین مبین مذہب اسلام نے جہاں زندگی کو آزمائشوں کا ایک سلسلہ بتایا ہے وہیں انسان کو مایوس وناامید ہونے سے منع بھی کیا ہے اور مسائل سے نکلنے کیلئے رہنمائی کی ہے۔
EPAPER
Updated: November 24, 2023, 12:37 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai
دین مبین مذہب اسلام نے جہاں زندگی کو آزمائشوں کا ایک سلسلہ بتایا ہے وہیں انسان کو مایوس وناامید ہونے سے منع بھی کیا ہے اور مسائل سے نکلنے کیلئے رہنمائی کی ہے۔
انسانی زندگی کا ایک ایسا لازمی جزو ہے کہ انسان لاکھ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی غموں سے پاک رہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ وہ بلا ہے جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ بلکہ مشاہدات وتجربات کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خوشیوں کے مقابلے میں انسان کو غم کچھ زیادہ ہی ملتے ہیں ۔ ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ انسان کو خوشیوں کے لئے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے ، کوشش کرنی پڑتی ہے جبکہ غم مفت میں ہاتھ آتے ہیں ۔ قرآن مجید میں انسان کو قدم قدم پر ملنے والی انہی تکالیف اور غموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’دیکھو ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کبھی خوف سے، کبھی بھوک سے، کبھی مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے۔‘‘ (البقرہ: ۱۵۵) یعنی انسان کو یہ پیغام دیا جاچکا ہے کہ زندگی کو پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر سمجھ کر اس دنیا میں رہو۔ یہاں پر ہر قدم پر تمہاری آزمائش کی جائے گی، تمہیں مصیبتوں میں گرفتا ر کیا جائے گااور تمہیں مشکلوں میں ڈالا جائے گا۔ زندگی کا یہی و ہ تلخ پہلو ہے جو اکثر لوگوں کو منفی سوچ کی گہری کھائی میں دھکیل دیتا ہے، اور زندگی کی ایک ایسی تصویر کا نقش لوگوں کو ابھارتا ہے کہ جس میں سوائے غم اورآنسو کے کچھ اور محسوس نہیں ہوتا۔
یہاں یہ سوچنا کہ تاحیات انسا ن کو صرف غم ہی غم ملیں گے غلط ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اسلام زندگی میں آنے والی مشکلوں کی جانب اشارہ کرتا ہے، وہیں اسلامی تعلیمات اس زہر کا تریاق بھی ہمیں بتلاتی ہیں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ غم کی کیسی ہی اندھیری رات ہو ہمیں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اُمید کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے یہ اعلان فرمایا:’’ اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۳۹) اس لئے کہ ایک طرف اسلام نے زندگی کو آزمائشوں کا ایک سلسلہ بتلایا ہے تو دوسری طرف انسان کو مایوس وناامید ہونے سے منع بھی کیا ہے۔اسلام اللہ عزوجل کی رحمت سے خاص لوَ لگانے کی تلقین کرتا ہے اس لئے کہ اگر انسان کے اندر یہ عادت پیدا ہوجائے تو پھر وہ ہر غم میں خوشی، ہر آنسو میں مسکراہٹ اور ہر تکلیف میں آسانی ڈھونڈ لیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو تحریک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔‘‘(الزمر:۵۳) اسلئے کہ جب انسان کا دل یاس وغم کے اس گہرے سمندر میں ڈوب جائے گا تو یقیناً اُس کی زندگی اجیرن ہوجائیگی اور وہ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب جائے گا کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے خالق ومالک سے بھی بدظن ہوسکتاہےاور اس کا ایمان و یقین بھی ڈگمگا سکتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ انسان غم کو ایک ابدی حقیقت نہ سمجھے بلکہ اپنے رب کریم کی جانب سے ایک آزمائش سمجھے اور اس سے ابھرنے کی کوشش کرے نہ کہ کسی ڈپریشن میں ڈوب کر اپنی ساری زندگی فنا کردے۔ مثلاً اپنے کسی عزیز کی موت اس دنیا میں انسان کے لئے غموں کا سب سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے، لیکن اس موقع پر بھی اسلام نے سوگ منانے کیلئے تین دن کی تعیین کردی۔ (صرف بیوی کو حکم ہے کہ وہ شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کی عدت گزارے) اس لئے کہ اگر ایک ہی غم میں انسان تا حیات گھل گھل کر جئے تو یہ اس کی خود کی آخرت کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ اس طرح غم کے سمندر میں ڈوبنے کی وجہ سے انسان کے ذہن میں منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں ، جو ناشکری کے کلمات کی شکل میں انسان کی زبان سے ظاہر ہوتے ہیں اور بعض اوقات نوحہ اور ماتم اور بال نوچنے کے اعمال بھی انسان سے صادر ہوتے ہیں ۔ ایسے کسی بھی ردعمل سے شریعت نے منع کیا ہے اور ان سے سختی کے ساتھ بازرہنے کی تاکید کی ہے۔
دوسری بات جس سے غموں کا علاج کیاجاسکتا ہے وہ صبر ہے۔ صبر بھی ایسا جو غم پہنچنےکے بعد ابتدائی مرحلے میں کیاجائے ورنہ وقت تو خود ایسا مرہم ہے جو ہر گھاؤ کو بھر دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ’’الصبر عند الصدمۃ الاولی‘‘۔ صبر مصیبت کے ابتدائی مرحلے میں ہونا چاہئے۔ اور یہ صبر کا ہی عظیم کام ہے جس کے متعلق اسلام نے مکمل رہنمائی کی ہے اور اس کے بیشمار فضائل قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں اللہ عزوجل نے صبر کرنے والوں کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (الانفال: ۴۶) ہمارے نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ ﷺ پر بے شمار غموں کے پہاڑ ٹوٹے لیکن آپﷺ نے کبھی شکایت کا ایک لفظ اپنی زبان پر آنے نہ دیا اور اللہ عزوجل کے ہر فیصلے پر رضامندی کا اظہارکیا۔ یہی راستہ آپؐ کے صحابہؓ نے اختیار کیا تو اللہ کی جانب سے’’ اللہ ان سے راضی ہوا‘‘ کی نہ صر ف ان کو بشارت دی گئی بلکہ یہی کلمہ ’’رضی اللہ عنھم‘‘ ان کے نام کے ساتھ تاقیامت جوڑ دیا گیا۔
سیرۃ النبیﷺ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ویسے تو بیشمار واقعات صبرکے ملتے ہیں ،لیکن ان میں بالخصوص وہ واقعہ کہ جس میں یہ وارد ہوا ہے کہ جب آپﷺ کے اکلوتے فرزند حضرت ابراہیم کی سانسیں اکھڑنے لگیں تو یہ منظر دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں ہوگئے، اس حالت میں بھی آپؐ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے: ’’آنکھ آنسو بہاتی ہے، اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہوجائے، اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پربہت زیادہ غمگین ہیں۔‘‘ ایک طرف غم کا اظہار بھی اور دوسری طرف صبر کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا، یہی وہ طرزعمل ہے جو ہر مومن کو ہر حالت میں اپنا نا چاہئے۔
تیسری بات جس کے ذریعہ غموں کا علاج کیا جاسکتا ہے وہ بارگاہ خداوندی میں ٹوٹ کر، بکھر کر دعا کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ (البقرۃ ۱۵۶) یعنی اسلام انسان کو غم کی گھڑی میں اللہ کی جانب رجوع کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ عزوجل ہی کی ذات ہے جس کی جانب سے ہماری تقدیر کے سارے فیصلے ہوتے ہیں ۔ اگر بندے کو اللہ سے سچی محبت ہے تو پھر وہ اس کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے۔ وہ ہر قسم کے جانی ومالی نقصان کے بعد یہی کہتا ہے (جیسا کہ حدیث میں واردہواہے): ’’بیشک اللہ کا ہی ہے جو کچھ اس نے واپس لیا اور اسی کا ہے جو کچھ اس نے ہم کو عطا کیا۔ ‘‘ اور پھر بندہ اپنے رب سے راضی ہوکر اس کے سامنے ٹوٹ کر، بکھر کر، گڑگڑا کر دعائیں کرتا ہے۔ اوریہ دعا ہی ہے کہ جسے مومن کا ہتھیار کہا گیا ہے۔ یہی ہتھیار ہے جس کی مدد سے انسان اس دنیا کی بڑی سے بڑی مشکل اور پریشانی کو آسان بنالیتا ہے۔
زندگی میں آنے والے غموں کا مقابلہ کرنےکے طرز عمل کے سلسلے میں جب ہم صحابہ کرامؓ کی زندگی کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روشنی کے ان میناروں نے اپنی زندگی میں آنے والے غم و احزان کا سامنا انہی اسلامی تعلیمات کے ساتھ کیا ہے۔ اسلام کا سہارا لینے کی وجہ سے یہ مشکلیں ان کیلئے آسان ہوگئیں اور قرآن مجید کی خوشخبری ’’بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے‘‘ (الم نشرح) ان کے لئے حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔
امت مسلمہ پر آج جو غموں کے دراز سلسلے آرہے ہیں ان کا آسان سا علاج اسلامی تعلیمات میں ہی مضمر ہے۔ آج بھی اللہ کی رحمت کی امید، صبر اور دعا ان تینوں کے ذریعہ امت مسلمہ اپنے ہر درد کا علاج ڈھونڈ سکتی ہے اور خود پر پڑنےوالے ہر غم یا تکلیف کو مسکراہٹ اور آسانی میں تبدیل کرسکتی ہے۔لیکن اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے امت کو ’’ اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنادیا ہے، تو کیا ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے‘‘ (القمر:۱۷)میں مضمر پیغام کو سمجھ کر اس پر صدق دل سے عمل کرنا ہوگا اور ہر حال میں راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرنی ہوگی کہ اسی میں دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔