Inquilab Logo

جابرانہ طرز ِحکمرانی کی دستک اور ہم

Updated: March 30, 2023, 10:27 AM IST | Pratap Bhanu Mehta | Mumbai

نفسیاتی طور پر ہم نے سیاسی جبر کو تسلیم کرلیا ہے ۔ فرقہ پرستی عروج پر ہے اور ہمارا کوئی ردعمل نہیں ہے۔ معلومات کی فراہمی کانظام تباہ ہو چکاہے، کوئی ردعمل نہیں۔ عدلیہ کا دل دھڑکنا بند ہوچکاہے، کوئی ردعمل نہیں۔ غلط طریقوں سے اپوزیشن کو ختم کیا جارہاہے، کوئی ردعمل نہیں ۔ ظالم آزاد گھوم رہے ہیں، انصاف اور آزادی سلاخوں  میں جکڑی ہوئی ہے اور ہم اس سے قطعی بے پروا ہوچکے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ہندوستان کا سیاسی نظام پوری طرح سے مطلق العنانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنایا جارہاہے، جس کے نتیجے میں راہل گاندھی لوک سبھا کی رکنیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ شہری سماج اور تحقیقی اداروں  پر غرایا اورانہیں  ڈرایا جارہاہے۔ معلومات پر پہرہ ہےاور احتجاج پر روک۔ یہ عوامل ہمارے نظام حکومت کا حصہ بن چکے ہیں جن کا مقصد ایسی جابرانہ طرز حکمرانی ہے جس کی وجہ سے ہر طرف خوف طاری ہوجائے۔ 
  ملک میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ چونکادینےوالاہے، اس لئے نہیں کہ کچھ لیڈروں کو نشانہ بنایا جارہاہےبلکہ اس لئے کہ موجودہ بی جےپی حکومت صرف یہی اشارہ نہیں دے رہی ہے کہ وہ کس طرح  اپوزیشن کو برداشت نہیں کریگی بلکہ وہ یہ بھی اشارہ دے رہی ہے کہ وہ کسی بھی صورتحال میں  اقتدارکی پُرامن منتقلی کیلئے تیارہے ، نہ اس کے بارے میں سوچتی ہے۔ اس کے اقدامات اقتدار پر قابض رہنے کے اس کےبےپناہ لالچ کو اوراس کیلئے کسی بھی حدتک جانے کے اس کے ارادہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس طرح  کا اقتدار بی جےپی چاہتی ہے اوراس کے حصول کیلئے جو طریقہ ٔ کار وہ اختیار کرتی ہےوہ کسی بھی رکاوٹ کوبرداشت نہ کرنےوالا ہے۔یہی جابرانہ طرز حکمرانی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ 
 جمہوریت میں احسن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کیلئے صاف و شفاف انتخابات کے علاوہ بھی بہت سے عوامل درکار ہوتے ہیں مگر اپوزیشن کو انتہائی بے دردی سے دبانے اور آزادی کو چھین لینےکا طریقہ کار ان عوامل کو ضائع کردیتا ہے۔ اقتدار کی بحسن وخوبی منتقلی کا ماحول قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاستداں ایک دوسرے کو ایک ہی پیشے سے وابستہ افراد کے طورپردیکھیں، ایسے دشمن کے طور پر نہ دیکھیں جس پر ہر حال میں غالب آنا ضروری ہے۔ اگر کوئی حکمراں  طبقہ اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا کرتا ہے تو وہ اقتدار کھودینے کے نتائج سے خوفزدہ رہتا ہے۔ وزیراعظم مودی، امیت شاہ اور ان کےساتھی ،  اپوزیشن اوراپنے ناقدین کے ساتھ جس طرح کا تحقیر آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں، اس کو دیکھتےہوئے کیا آپ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ ان کے ذہن کے کسی گوشے میں کبھی اپوزیشن میں بیٹھنے کا خیال بھی آتاہوگا؟ ہمیشہ برسر اقتدار  رہنے کا  ایسا خیال بھی جابرانہ طرز حکمرانی کی ہی علامت ہے جو متعلقہ افراد کو اقتدار کے کھودینے کے اندیشے سے ہمیشہ خوفزدہ رکھتاہے ۔  
 نکتہ یہ نہیں  ہے کہ حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہے یا نہیں، بلاشبہ حاصل ہوگی، عظیم مفکر افلاطون یہ کہہ چکے ہیں کہ جابرانہ طرز حکومت جمہوریت کی ہی سوتیلی اولاد ہوسکتی ہے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی بی جےپی کی خواہش اسے ایسے منطقی جال میں  پھنسا رہی ہے جس میں وہ ایسے حالات پیدا کرنےکی کوشش کریگی کہ مساوی اور شفاف مقابلہ ممکن ہی نہ رہ جائے۔ وہ کسی ایسے دراز کو بھی کھلا نہیں  رہنے دینا چاہتی جہاں  سے روشنی کی ہلکی سی کرن بھی درآسکتی ہو۔ اسی کے نتیجے میںجہاں  شہری سماج اوراُن تنظیموں کو نشانہ بنایا جاتاہے جو سماج میں کام کرتی ہیں وہیں  اپوزیشن کے ایک رکن پارلیمنٹ کو رکنیت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ 
 ان سیاسی پارٹیوں کیلئے  جو خود کو اکثریتی فرقے کی قومی شناخت کا محافظ سمجھتی ہیں، اقتدار سے دستبردار ہونا مشکل ہوتاہے۔ عام سیاسی منظر نامہ میں اختلافات کے باوجود یہ خیال رہتا ہے کہ فریق مخالف کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے مگر جب نظریات کی بنیاد صرف اور صرف فرقہ واریت پر ہو اوراس نے قوم پرستی کا لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہوتو ہر اختلاف رائے کو غداری سے تعبیر کیا جاتاہے۔ بی جےپی جیسی نظریاتی پارٹیاں جب اقتدار میں نہیںہوتیں تو وہ انتخابی ضوابط کی پابندی پر زور دیتی ہیںمگر جیسے ہی وہ اقتدار کا مورچہ سنبھالتی ہیں تو یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ یہ ان کی ابدی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم پرست محافظ کے طور پر کام کریں، حالات کیسے ہی ہوں۔ 
 وہ اس گمان میں مبتلا ہوتی ہیںکہ ان کی قوم پرستی ہر چیز کا جواز ہے۔ چاہے معاملہ قانون کے ساتھ کھلواڑ کا ہو یا براہ راست تشدد کا ۔ ادارہ جاتی نگرانی( جاسوسی)، تشدد اور نفرت اس کی سیاست اور حکومت کی بنیاد بن جاتی ہے۔  جن پارٹیوں کے ڈھانچے میں ہی تشدد ہواُن کے اقتدار سے خود دستبردار ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ انہیں  پوری قوت سے بے دخل کیا جائے۔ جابرانہ طرز حکمرانی کی یہ منطق یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ معاملہ صرف اپوزیشن پارٹیوں کی کمزوری تک محدود نہیں ہے۔ رکنیت کی منسوخی کے باوجود کانگریس کے ردعمل،ا س کے اراکین کے کسی بھی طرح  کا جوکھم اٹھانے کیلئے تیار رہنے اور سڑکوں پر اتر نے کی اس کی صلاحیت کے مظاہرہ کے امکانات مشکوک ہیں، اپوزیشن کا اتحاد، اتحاد کا وقتی مظاہرہ زیادہ اور مستقل کم ہے۔ 
 کئی معاملات میں ہندوستان میں اب بھی اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت موجود ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان پختہ ہوتی آمریت کے خلاف مزاحمت کیلئے تیارہے؟کسی بھی کامیاب مطلق العنان حکومت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ اس کے حامی غیر حقیقی چیزوں کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے اس ایقان کے خلاف کیسا ہی ثبوت پیش کردیجئے مگر ان کا یقین متزلزل نہیں ہوسکتا۔مثال کے طورپریہ کہ دیگر ملکوں کے مقابلے میں  ہندوستان میں بے روزگاری بہت کم ہے، تمام ادارے بہت اچھی طرح کام کررہے ہیں،عالمی قیادت کے معاملے میں ہندوستان نے غیر معمولی ترقی کی ہے، چین نے اس کی زمین پر قبضہ نہیں کیا ہے اور سرمایہ مخصوص ہاتھوں  میںمحدود نہیں کردیاگیا۔ غیر حقیقی چیزوں کو حقیقت سمجھنے کا معاملہ نظام حکومت کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے شخص یعنی وزیراعظم کے تعلق سے سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے ذریعہ جبر و زیادتی بھی پاکیزگی قرار پاتی ہے، ان کے گھمنڈ کو ان کےپُرعزم ہونے کی علامت تصور کیا جاتاہےاوراداروں کو برباد کردینے کو فطری خدمت تصور کیا جاتاہے۔ ادارہ جاتی اور نفسیاتی طور پر ہم نے سیاسی جبرکو تسلیم کرلیا ہے ۔ فرقہ پرستی عروج پر ہے،کوئی ردعمل نہیں ہے۔ معلومات کی فراہمی کانظام تباہ ہوچکاہے، کوئی ردعمل نہیں ہے۔ عدلیہ کا دل دھڑکنا بند ہوچکاہے، کوئی ردعمل نہیں ہے۔ غلط طریقوں سے اپوزیشن کو ختم کیا جارہاہے، کوئی ردعمل نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ظلم کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔ انصاف اور آزادی سلاخوں  میں جکڑی ہوئی ہے اور ہم بے پروا ہوچکے ہیں۔ 
(بشکریہ: انڈین ایکسپریس)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK