نذر عمر فاروق ؓ (قاتلانہ حملہ: ۲۶؍ ذی الحجہ ۲۳؍ہجری ۔ شہادت: یکم محرم الحرام ۲۴؍ہجری)
ایسی شخصیات جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رعب، دبدبہ اور شخصی وجاہت عطا فرمائی ہو اور لوگ اُن کے طرزِ عمل کو دیکھ کر اپنے لئے راہوں کو متعین کرتے ہوں ہر عہد میں خال خال ہی ہوتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رعب، دبدبہ، ہیبت، قوت، بہادری اور جرأت جیسے اوصاف سے نواز رکھا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ قبولِ اسلام سے قبل بھی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے اہلِ عرب کے ہاں ممتاز تھے۔
حضرت عمرؓ کی نہ صرف شہادت کی دعا قبول ہوئی بلکہ تاقیامت اپنے حبیبؐ کی قربت بھی نصیب ہوئی۔ تصویر : آئی این این
سیدنا عمر فاروقؓ نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد ابتدائی طور پر اسلام کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھتے تھے اور آپ کا خیال تھا کہ اسلام کی دعوت کی وجہ سے اہلِ عرب، اہلِ مکہ اور قریش تقسیم ہو جائیں گے۔ اس وقت سیدنا عمر فاروقؓ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ نبی کریمﷺ کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کو اپنے دین کی تائید اور نصرت کے لئے منتخب فرما چکے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ وہی عمر، جو اسلام کے سخت معاندین میں شمار ہوتے تھے، حلقہ بگوش اسلام ہو کر اسلام کے بہت بڑے موید بن گئے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام کی وجہ سے اسلام کو بہت زیادہ تقویت ملی اور وہ مسلمان جو اپنے گھر میں چھپ چھپ کر نمازوں کو ادا کرنے والے تھے اُن کو بیت اللہ میں جا کر نماز ادا کرنے کا موقع میسر آیا۔ حضرت عمر فاروقؓ اسلام قبول کرنے کے بعد پوری قوت اور استقامت کے ساتھ دین کی خدمت کے لئے وقف ہو گئے اور جب بھی آپؓ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا کوئی حکم ملتا تو فوراً سے پیشتر اس کو پورا کرنے کیلئے کمربستہ ہو جاتے۔
حضرت عمر فاروقؓ کا قبولِ اسلام کفار کے لئے بہت زیادہ تکلیف کا باعث تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کی مخالفت میں کسی قسم کی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ حضرت عمر فاروقؓ لوگوں کی مخالفت سے مرعوب ہوئے بغیر نبی کریم ﷺ اور اسلام کے ساتھ پختگی سے وابستہ رہے۔ جب سرزمین مکہ کو اہلِ اسلام کے لئے تنگ کر دیا گیا تو جہاں دیگر مسلمانوں نے سرزمین مکہ کو خیرباد کہہ کے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسلام کی سربلندی کے لئے اپنے دیس کو خیرباد کہہ دیا۔ مدینہ طیبہ میں آپؓ حضرت رسول اللہﷺ کی ہمراہی میں اسلام کی خدمت میں مصروف و مشغول رہے اور ہر قسم کے نشیب و فراز میں بھرپور طریقے سے اللہ کے دین کی نصرت کے فریضے کو انجام دیتے رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو اس بات سے بہت زیادہ دلچسپی تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُن سے راضی ہو جائیں اور اس کے بعد حضرت رسول اللہﷺ کی محبت اور شفقت اُن کو حاصل ہو جائے۔ اسی جذبے کے تحت آپؓ نبی کریمﷺ کی قربت کے بھی خواہاں رہا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ سے وابستگی اور محبت کی وجہ سے آپؓ نبی کریمﷺ کے قریبی رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کا شمار اُن دس صحابہ کرام میں بھی ہوتا ہے جن کو نام لے کر نبی کریمﷺ نے جنت کی بشارت دی۔
یہ بھی پڑھئے:فطرت کے مطابق کائنات کی چیزوں کو استعمال کرنے میں بھلائی ہے
نبی کریمﷺ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی ہمراہی میں اُحد پہاڑ کے اوپر سے گزر رہے تھے تو اُحد پہاڑ نے لرزنا شروع کر دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے قدم مبارک کو پہاڑ پر مارا اور اپنا اور اپنے رفقاء کا تعارف کرایا تو پہاڑ تھم گیا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺ، ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اُٹھا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید (کھڑے) ہیں۔ ‘‘
حضرت عمر فاروقؓ پوری زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف رہے اور زندگی کے آخری ایام تک نبی کریمﷺ کی ہمراہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے کوشاں رہے۔ آپؓ کو نبی کریمﷺ سے بڑی والہانہ محبت تھی۔ آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد صدیق اکبرؓ نبی کریمﷺ کے خلیفہ بنے تو حضرت عمر فاروقؓ اُن کے مشیرِ خاص کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ سیدنا صدیقؓ کی رحلت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا فاروق اعظمؓ کو خلعت خلافت سے نوازا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں اسلام کی بہت زیادہ خدمت کی اور روم اور ایران کی عالمی قوتوں کو پارہ پارہ کر دیا۔ کسریٰ کے آتش کدے کو بجھا دیا، کلیسا کی ہیبت کو مٹا دیا اور دنیا کے بڑے حصے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے جھنڈوں کو لہرا دیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے عد ل، انصاف اور رعایا کی خبرگیری کے حوالے سے ایسا کردار ادا کیا کہ آج مسلمان مؤرخین کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مؤرخین بھی آپؓ کے اس طرزِ عمل کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
حضرت عمر فاروقؓ عدل، انصاف، جرأت، بہادری، للہیت اور تقویٰ کے ساتھ نظام حکومت کو چلاتے رہے اور آپؓ کی یہ خواہش تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو شہادت کا منصب عطا کرے اور آپ مدینہ طیبہ میں مدفون ہوں۔ بظاہر اس خواہش کا پورا ہونا مشکل نظر آرہا تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی دعا کو قبول و منظور فرمایا اور ۲۶؍ ذی الحجہ ۲۳ھ کو فجر کی نماز کے دوران ابو لؤلو فیروز نامی ایک مجوسی نے آپؓ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ زخموں کی تاب نہ لا کر، مؤرخین کی ایک بڑی تعداد کے مطابق‘ آپؓ یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی خواہش تھی کہ اُن کو نبی کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے آپؓ کی اس خواہش کو بھی قبول و منظور فرمایا اور آپؓ نبی کریمﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ قیامت کی صبح تک کے لئے محو استراحت ہو گئے۔
سیدنا عمر فاروقؓ کی سیرت و کردار اہلِ اسلام کے لئے ایک روشن باب ہے اور آج بھی ریاست کے نظم و نسق کو بہترین انداز میں چلانے کے لئے اگر کسی حکمراں کو آئیڈل قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ حضرت عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی ہے۔ انہوں نے کتاب و سنت کی روشنی میں حکومت کرکے اس بات کو واضح کر دیا کہ اسلام کا سیاسی نظام انسانوں کی تشنگی کو دور کرنے کے لئے کافی ہے۔