عفو و در گزر کا باب آپؐ کے یہاں بہت وسیع تھا۔ دوستوں، دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا، مکہ فتح ہوا تو وہ تمام لوگ آپؐ کے سامنے تھے، جنہوں نے آپؐ پر شدید مظالم ڈھائے لیکن آپ ؐنے انہیں بہ یک جنبش ِ زبان معاف فرما دیا۔
EPAPER
Updated: November 05, 2021, 3:21 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani | Mumbai
عفو و در گزر کا باب آپؐ کے یہاں بہت وسیع تھا۔ دوستوں، دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا، مکہ فتح ہوا تو وہ تمام لوگ آپؐ کے سامنے تھے، جنہوں نے آپؐ پر شدید مظالم ڈھائے لیکن آپ ؐنے انہیں بہ یک جنبش ِ زبان معاف فرما دیا۔
اﷲ کی طرف سے جو نبی اور رسول آئے، وہ انسانیت کے لئے نمونہ اور آئیڈیل ہیں، ان کا ہر عمل لوگوں کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتا ہے؛ اسی لئے وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ ترین معیار پر قائم رہتے ہیں، ان کی عبادتیں خشوع و خضوع کا نمونہ ہوتی ہیں، ان کے معاملات راست گوئی اور پاکیزگی پر مبنی ہوتے ہیں، ان کی معاشرت حسن سلوک اورسماج کے مختلف طبقہ کے ساتھ اچھے برتاؤ اور حقوق کی ادائیگی کی بہترین مثال ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر ہوتے ہیں۔ یہ بات اس لئے بھی ضروری ہے کہ نبی کا بنیادی فریضہ دعوت و تبلیغ ہے اور دعوت کے مؤثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مدعو پر اس کے اخلاق و سلوک کے بہترین نقوش ثبت ہوں؛ کیوںکہ محبت اور خوش اخلاقی سخت سے سخت دل کو بھی پگھلانے کی طاقت رکھتی ہے، قرآن مجید میں مختلف انبیاء کرام اور ان کی اقوام کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں، ان واقعات میں قوموں کی اپنے انبیاء کے ساتھ بد سلوکی و بد زبانی اور اس کے مقابلہ میں انبیاء کی طرف سے انتہائی درجہ تحمل و بردباری اور خوش گفتاری کا ذکر ملتا ہے ۔
سرکار دو عالم جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بلند اخلاق کی اعلیٰ ترین سطح پر تھے؛ اسی لئے قرآن مجید میں آپ ﷺ کے بارے میں کہا گیا ہے: ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔‘‘ (القلم:۴) اکثر اخلاقی کمزوریوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے، وہ گفتگو تو بہت اونچی کرتا ہے لیکن عمل میں بہت نیچی سطح پر ہوتا ہے مگر آپ ﷺ کی زندگی میں قول و فعل کا تضاد بالکل نہیں تھا، آپ ﷺ لوگوں کو جس بات کی دعوت دیتے، اسی پر آپ ﷺ کا عمل ہوتا؛ اسی لئے حضرت عائشہؓ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اخلاق محمدیؐ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ سراپا قرآن تھے ۔ (مسند احمد : ۶؍۹۱ )
تواضع و انکساری
آپ ﷺکے مزاج کا نمایاں پہلو تواضع و انکساری تھا، آپ مقام نبوت پر فائز ہیں اور پورا جزیرۃ العرب آپ کے قدموں میں ہے؛ لیکن تواضع اور سادگی کا حال یہ تھا کہ اپنے ہاتھوں سے گھر کی صفائی کر لیتے، بازار سے سودا لاتے، جوتی پھٹ جاتی تو اسے سی لیتے اور بکری کا دُودھ دوہ لیتے۔ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۵۶۶۲)۔ آپؐ کھانے کے لئے بیٹھتے تو نہایت تواضع کی کیفیت کے ساتھ، اور فرماتے کہ میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کو کھانا چاہئے۔ اگر کوئی غریب آدمی کسی معمولی سی چیز پر مدعو کرتا تو اس کی دعوت بھی قبول فرمالیتے، مریضوں کے گھر پہنچ کر ان کی عیادت کرتے اور اگر کوئی غلام دعوت دے تو اسے بھی قبول فرماتے تھے۔ (مدارج السالکین : ۲؍۳۲۸)
آپؐ کے طرز زندگی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے تو منع فرمادیتے، اگر کسی باندی کا بھی کوئی کام ہوتا اور وہ بھی سرِ راہ اپنی کسی ضرورت کے لئے روکتی تورُک جاتے، بڑے تو بڑے ، چھوٹے بچوں کو بھی سلام فرماتے۔ (بخاری ، عن انس ؓ، حدیث نمبر : ۶۲۴۷) رفقاء کے ساتھ اس طرح بیٹھتے کہ امتیازی شناخت نہ ہونے کی بناء پر لوگ آپؐ کو پہچان نہیں پاتے، اپنے لئے تعظیم کے جائز الفاظ بھی پسند نہیں فرماتے، ایک بار بعض حاضرین نے عرض کیا: آپؐ ہمارے آقا ( سید ) ہیں، فرمایا : ’’نہیں، آقا تو خدا کی ذات ہے۔ ‘‘ ایک بار لوگوں نے عرض کیا : آپ ہم میں سب سے افضل و برتر ہیں، آپ ﷺ نے اس تعبیر کو بھی پسند نہیں فرمایا۔ تواضع و فروتنی کا یہ حال تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر جب دس ہزار مسلح جاں نثار آپؐ کے گرد و پیش تھے، انکساری کی وجہ سے آپ کا سرمبارک اس قدر جھکا ہوا تھا کہ بار بار اونٹنی کے کوہان سے ٹکراجاتا تھا۔
آپؐ کا رہن سہن بھی تواضع کا مظہر تھا؛ ایک بار حضرت عمرؓ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کھلی چٹائی پر آرام فرمارہے ہیں، جس پر کوئی بستر بھی نہیں ہے اور سرمبارک کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے، جس میں چھالیں بھری ہوئی ہیں اور بدن مبارک پر چٹائی کے نشانات ہیں۔ حضرت عمر ؓیہ منظر دیکھ کر رونے لگے، آپ ﷺ نے سبب دریافت کیا، کہنے لگے: اللہ کے رسول! قیصر و کسریٰ تو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے باوجود اس حالت میں ہیں ، ارشاد ہوا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت؟ (بخاری ، حدیث نمبر : ۵۸۴۳)
ایک صاحب دورانِ گفتگو بول پڑے: جو خدا چاہے اور آپ ﷺ چاہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، صرف خدا چاہے، (مسند احمد : ۳؍۴۳۱ ، حدیث نمبر : ۱۹۶۴)۔ ایک انصاری کی شادی میں کچھ لڑکیاں دُف کے ساتھ نغمے گارہی تھیں، انھوں نے اس میں ایک مصرع پڑھا : ’’اور ہمارے بیچ ایسے پیغمبر ہیں جو کل واقع ہونے والی باتوں کو جانتے ہیں۔ ‘‘ یہ سن کر آپ ﷺ نے اس مصرع کو پڑھنے سے منع فرمادیا، (بخاری ، کتاب المغازی ، حدیث نمبر : ۴۰۰۱ ) جس روز آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓکی وفات ہوئی، اتفاق سے اسی دن سورج کو گہن لگ گیا، جاہلیت کے قدیم تصور کے مطابق لوگ کہنے لگے کہ صاحبزادۂ نبوی کے انتقال کی وجہ سے گہن لگا ہے، آپ ﷺ نے فوراً اس کی تردید میں باضابطہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔
آپؐ نے تواضع پر عمل بھی کیا اور اُمت کو بھی اس کی تلقین فرمائی؛ کیوںکہ تواضع حسن اخلاق کی بنیاد ہے اور تکبر بد اخلاقی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جو تواضع اختیار کرے۔ (الترغیب والترہیب: ۳۰؍۵۵۸) نیز فرمایا: جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں۔ (مسلم ، عن ابی ہریرہؓ: ۲۵۸۸)
چوںکہ تواضع کا ایک پہلو ظاہری سادگی بھی ہے؛ اس لئے آپ لباس و پوشاک اور رہن سہن میں سادگی کو پسند فرماتے تھے، آپؐ نے فرمایا: سادگی ایمان کا حصہ ہے۔ (ابوداؤد ، عن ابی امامہ حارثی، حدیث نمبر : ۴۱۶۱)۔ ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود تواضع اختیار کرتے ہوئے عمدہ لباس نہیں پہنا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور جو لباس وہ پسند کرے گا، اسے اس کو پہننے کا اختیاردیا جائے گا۔ (ترمذی، عن معاذ بن انسؓ، حدیث نمبر : ۳۴۸۱)۔ اس تواضع کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ ﷺ غرباء کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے غریب لوگوں کے درمیان تلاش کرو، اس لئے کہ تمہیں تمہارے کمزوروں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے۔ (ترمذی ، حدیث نمبر: ۱۷۰۲)
عفو و درگذر
عفو و در گزر کا باب آپؐ کے یہاں بہت وسیع تھا اور دوستوں اور دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا ، جب مکہ فتح ہوا تو وہ سارے لوگ آپؐ کے سامنے موجود تھے، جنھوں نے آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے، آپؐ کو اور آپؐ کے رفقاء کو جسمانی اذیتیں پہنچائیں ، معاشی ناکہ بندی کی اور آپؐ کے پورے خاندان کو دانہ دانہ کیلئے ترسایا، آپؐ کی صاحبزادیوں کے طے شدہ رشتے تڑ وا دیئے؛ لیکن آپ ؐنے ان سبھوں کو بہ یک جنبشِ زبان معاف فرما دیا، یہاں تک کہ ان کے جور و ظلم کا ذکر کرکے انھیں شرمندہ بھی نہیں فرمایا۔حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ سواری پر سوار ہوئے اور حضرت اسامہؓ کو اپنے پیچھے بیٹھا لیا، آپ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کیلئے تشریف لے جارہے تھے، آپ کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا ، جہاں مسلمان بھی تھے، مشرکین بھی تھے اوریہود بھی تھے، انھیں میں منافقین کا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا اور مخلص صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ بھی تھے، آپ کی سواری کا غبار اُڑا اور اس مجلس میں پھیل گیا۔ عبداللہ بن ابی نے ناک پر چادر رکھ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اُڑاؤ ، حضور ﷺ نے اس مجمع کو سلام کیا، پھر اُترے اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دی نیز ان کے سامنے کچھ قرآن پڑھا۔ عبداللہ بن ابی کہنے لگا: اس سے اچھی کوئی اور بات تمہارے پاس نہیں ہے؟ تم جو کچھ کہہ رہے ہو، اگر یہ سچ اورحق ہے تو ہمیں ہماری بیٹھکوں میں تکلیف نہ دیا کرو اور جاؤ اپنے گھر، اگر ہم میں سے کوئی تمہارے پاس آئے تو اس سے بیان کیا کرو۔ آپ ﷺنے عبد اللہ بن ابی کے اس حقارت آمیز سلوک کو معاف فرمادیا۔ (بخاری، عن اسامہ بن زید ، حدیث نمبر : ۶۲۵۴)
ایک موقع پر ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : تمہارے پاس جو کچھ مال ہے، نہ تمہارا ہے نہ تمہارے باپ کا، مجھے بھی اس میں سے دو، آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے اور کچھ لاکر عنایت فرمایا، عرب کے دیہاتی عام طورپر تہذیب سے ناآشنا ہوتے تھے، وہ کہنے لگے: آپؐ نے بہتر برتاؤ نہیں کیا اور نہ اچھے اخلاق کا ثبوت دیا، آپؐ اندر تشریف لے گئے، جو کچھ بچ گیا تھا، وہ بھی لے آئے اور عنایت فرمادیا، دیہاتی بہت خوش ہوگیا، کہنے لگا : آپؐ نے بہت اچھا سلوک فرمایا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ پھر آپ ﷺنے اپنے صحابہ سے فرمایا: میری مثال اس شخص کی ہے جس کا اونٹ بِدک گیا ہو، لوگ اس اونٹ کو پکڑنے کے لئے دوڑیں، لوگ جس قدر دوڑتے، اونٹ اسی قدر بھاگتا جاتا، یہاں تک کہ اونٹ کے مالک کو خبر ہوئی، اس نے لوگوں کو منع کردیا اورپیار کے ساتھ اپنے ہاتھ میں چارا لے کر اونٹنی کو آواز دی، اونٹنی واپس آنے لگی، مالک اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے واپس لے آیا۔ آپؐنے فرمایا: جو سلوک بِدکی ہوئی اونٹنی کےساتھ اس کے مالک کا ہوتا ہے، وہی سلوک میرا اُمت کے اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے، جو بِدک گیا ہو۔ ( مسند بزار : ۱۵؍۲۹۴ ، حدیث نمبر : ۸۷۹۹ )
رسول اللہ ﷺ نجد کی طرف سے واپس آرہے تھے، راستہ میں ایک وادی ملی، جہاں بہت سے درخت تھے ، وہاں پہنچ کر دوپہر کا وقت ہوگیا، لوگ مختلف درختوں کے سایہ میں ٹھہر گئے، آپ ؐ بھی ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گئے، ایک شخص آیا، اس نے آپ پر تلوار سونت لی اور پوچھا : تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا: ’’ اللہ ‘‘۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور ہاتھ سے تلوار گر گئی، آپؐ اس سے بدلہ لے سکتے تھے ؛ لیکن آپ نے معاف فرما دیا ۔ (بخاری ، عن جابر بن عبد اللہ ؓ ، حدیث نمبر : ۳۹۱۰ )
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی پوری حیات ِ طیبہ عفو و درگزر سے عبارت ہے، آپؐ خود بھی عفو و درگزر سے کام لیتے اور اپنے رفقاء کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے، ایک صاحب نے اپنے خادم کے بارے میں دریافت کیا، جس سے بار بار تکلیف پہنچتی تھی ، کہ ہم کتنی بار اسے معاف کریں؟ آپؐ خاموش رہے ، انھوں نے پھر یہی سوال دُہرایا، تب بھی آپ خاموش رہے، انھوں نے تیسری بارپھر یہی سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہردن ستر بار معاف کیا کرو۔ (ابوداؤد ، عن عبد اللہ بن عمرؓ، حدیث نمبر : ۵۱۶۴ )
عام طورپر لوگ سمجھتے ہیں کہ بدلہ لینے میں ان کا وقار اور رُعب بڑھ جائے گا اور معاف کرنے میں کم ہوجائے گا، آپ نے لوگوں کی اس نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو بندہ عفو سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں: وما زاد اللّٰه عبداً بعفو إلاعزا ۔ (مسلم ، حدیث نمبر : ۲۵۸۸)۔