Inquilab Logo

حکومت کی ناکامیوں کی فہرست طویل ہورہی ہے

Updated: March 20, 2023, 11:54 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

صحافیوں نے اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کردیا ہے اور حقائق کو منظر عام پر لانے سے گریز کرنے لگے ہیں مگر اس کی وجہ سے حقائق چھپ نہیں جائینگے۔ یہ کبھی نہیں چھپتے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

وزیر اعظم نریندر مودی کو اگر ناقابل تسخیر نہیں تو سیاسی طور پر حاوی ہونے والا ضرور سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اپنی وجوہات ہیں جن کی ستائش کی جاسکتی ہے۔ مگر، جہاں تک اُن کی حکمرانی یا حکومت کے ایجنڈے کا سوال ہے، اُن کی دوسری میعاد اقتدار کی ناکامیوں کا عموماً نوٹس نہیں لیا جاتا۔ مثال کے طور پر: 
 (۱) جی ڈی پی کی صحت ۲۰۱۹ء سے پہلے ہی گرنے لگی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب جی ڈی پی کا اضافہ صرف ۳ء۷؍ فیصد درج کیا گیا تھا۔ ۲۰۲۰ء میں جب کووڈ کی پریشانی لاحق تھی نیز نہایت تکلیف دہ لاک ڈاؤن جاری تھا، تب ہماری شرح نمو چالیس سال میں پہلی مرتبہ منفی ہوگئی تھی۔ اب یہ شرح ۴؍ فیصد پر آکر ٹھہر گئی ہے اور اسے معمول کی بات سمجھا جانے لگا ہے۔ 
 (۲) جی ڈی پی کی صحت کے بعد دوسرا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن سے کچھ پہلے سرکاری سروے کے ذریعہ یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بے روزگاری دوگنا ہوکر ۶؍ فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد سے کمی آنا تو دور کی بات اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایک اور سرکاری سروے کے مطابق گزشتہ سہ ماہی میں یہ شرح ۷؍ فیصد تھی۔ اسی سروے نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ۳۰؍ سال سے زیادہ عمر کے ایسے نوجوان جو کالج کی ڈگری ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں، اُن کی تعداد ۲۹؍ فیصد ہے۔ اس سال ہمارا ملک دُنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائیگا مگر کیا کام کی عمر کے لوگوں کو روزگار دستیاب ہوگا؟
 (۳) کووڈ کے معاملے میں بی جے پی نے فروری ۲۱ء میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں وزیر اعظم مودی کا شکریہ ادا کیا گیا تھا کہ اُنہوں نے کووڈ کی وباء کو شکست دی۔ اس کے چند ہفتوں بعد کووڈ کی دوسری لہر نے قیامت برپا کردی۔ آکسیجن کی قلت نے افراتفری مچا دی۔ لوگ اپنے متوفین کی آخری رسوم ادا کرنے کیلئے بھی پریشان رہے کیونکہ اموات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تھا۔ ملک کے عوام نے اسی دوران یہ عبرتناک منظر بھی دیکھا کہ لاشیں ندیوں میں تیرتی ہوئیں اور کناروں پر پڑی ہوئی دکھائی دیں۔ اسی عالم میں یہ بھی ہوا کہ وزیر اعظم مودی ۲۰ء میں اچانک منظر عام سے دور ہوگئے۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بعد میں بی جے پی کی ویب سائٹ سے وہ قرار داد ہٹا دی گئی جو فروری ۲۱ء میں منظور کی گئی تھی۔ 
 (۴) افراط زر نے بھی اپنی مستقل جگہ بنالی۔ ایندھن کی قیمت کے ساتھ ہمارا جو یارانہ چل رہا تھا وہ اچانک ختم ہوگیا اور ایندھن کی قیمت بڑھتے بڑھتے ۱۰۰؍ روپے کے پار ہوگئی۔ خردہ بازار میں افراط زر کی شرح ریزرو بینک کی قابل برداشت حد سے آگے بڑھ گئی۔ اس پر قابو پانے کی کوشش کے نام پر سناٹا ہی سناٹا ہے۔
 (۵) قومی سلامتی کے معاملا ت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ پاکستان اور کشمیر سے متعلق دہشت گردی مخالف تدابیر سے توجہ ہٹا کر حکومت کو لداخ اور چین کی حفاظت پر مامور ہونا پڑا۔ گزشتہ تین سال کے دوران نہ تو ملٹری کی جانب سے بریفنگ ہوئی ہے نہ ہی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر اظہار خیال اور مباحثہ ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان کو یہ کہتے ہوئے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ یہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے۔
 (۶) موجودہ حکومت کی ناکامیوں میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کئی ایسے معاملات ہیں جنہیں حکومت آگے بڑھانا چاہتی تھی مگر بیدار عوامی تنظیموں یعنی سول سوسائٹی نے اس کے عزائم پر پانی پھیر دیا۔ اس میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کا خاص طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے جو کہ مودی حکومت کے ایجنڈے میں اہمیت کا حامل تھا مگر حکومت اس میں آگے نہیں بڑھ سکی۔ کہا گیا تھا کہ این آر سی، آسام کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں مرحلہ وار طریقے سے نافذ کیا جائیگا مگر حکومت اس کی جرأت نہیں کرسکی۔ آسام میں این آر سی پر جو کام ہوا اُس کے سبب ۱۹؍ لاکھ نام رجسٹر میں جگہ پانے سے محروم رہے۔ اس کی فہرست ۳۱؍ اگست ۲۰۱۹ء کو شائع کی گئی تھی مگر اس کے بعد سے اس محاذ پر بھی سناٹا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ حکومت جو پس و پیش میں ہے، کیا کرنے والی ہے اور کیسے کرنے والی ہے۔ اس نے یہ کام مؤخر کردیا ہے۔
 (۷) ناکامیوں کی فہرست میں زرعی قوانین کو بھی شامل کیا جائےگا۔ یہ قوانین آڈریننس کے ذریعہ لائے گئے تھے جن کے خلاف کسانوں نے پوری شدومد کے ساتھ احتجاج کیا جو ایک سال تک جاری رہا۔ کسانوں نے کسی بھی قیمت پر دھرنا ختم نہ کرنے کا عہد کررکھا تھا۔ یہ زبردست مزاحمت رنگ لائی اور نومبر ۲۲ء میں وزیر اعظم مودی کو ان سیاہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کرنا پڑا۔ ناکامیوں ہی کی فہرست میں یہ بھی شامل ہوگا کہ حکومت نے اس بار مردم شماری نہیں کروائی۔ 
 اس کے علاوہ بھی کئی محاذوں پر حکومت کی کارکردگی جمہوری کسوٹیوں پر پورا نہیں اُترتیں۔ اس میں سب سے زیادہ قابل ذکر یہ ہے کہ اقلیتوں پر زیادتی جاری رہی۔ بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بین مذہبی شادیوں کے خلاف قانون بنایا، بیف کے خلاف اقدامات کئے، ہریانہ میں نماز جمعہ کیلئے جو جگہیں فراہم کی گئی تھیں وہ دسمبر ۲۱ء میں واپس لی گئیں اور فروری ۲۲ء میں کرناٹک میں حجاب کو ممنوع کیا گیا۔ اس کے علاوہ عیسائیوں کے گرجا گھروں پر حملے جاری رہے اور وہاں کے عملے کے ساتھ سخت زیادتی کا سلسلہ برقرار رہا۔ حکومت کی کارکردگی کو آنکتے وقت ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مودی حکومت نے کشمیر کا ریاست کا درجہ چھین لیا گیا اس کے باوجود آج بھی محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس کشمیر کی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ آج کشمیر جنوبی ایشیاء کا واحد ایسا خطہ ہے جہاں جمہوری حکومت نہیں ہے۔ اب بھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہاں الیکشن کب ہوگا اور امن و سکون کے قیام اور شہریوں کو اعتماد میں لینے کیلئے حکومت کے پاس کیا پلان ہے۔ اسی فہرست میں کرپشن کو بھی جوڑ لیجئے بالخصوص اڈانی تنازع کو سامنے رکھ کر سوچئے۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ مودی حکومت کی امیج اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وزیر اعظم کی امیج، میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ ہے کہ وہ ایک طاقتور سیاستداں اور ناقابل تسخیر وزیر اعظم ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کی حکومت کئی محاذوں پر ناکامی سے دوچار ہے، بہت مضبوط حکومت ہونے کے باوجود اس کو اپنے کئی فیصلے یا تو واپس لینے پڑے یا مؤخر کرنے پڑے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس حکومت کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے نہ ہی اس کے پاس بہتر حکمرانی کا کوئی پلان ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ ملک کی قیادت کیسے کی جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK