Inquilab Logo

طلبہ کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اُن کے اساتذہ اور رشتہ دار سے بہتر اُن کے والدین لگا سکتے ہیں

Updated: May 29, 2023, 5:40 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہے کہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار طالب علم اپنی زندگی کے تعلق سے کسی انتہائی قدم کو یک بہ یک یا اچانک نہیں اٹھاتا۔

Parents should always monitor all the activities of their children, it is their responsibility
اپنے بچوں کی تمام سرگرمیوں پر والدین کو ہر وقت نظر رکھنی چاہئے ، یہ ان کی ذمہ داری ہے

(۱) ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہے کہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار طالب علم اپنی زندگی کے تعلق سے کسی انتہائی قدم کو یک بہ یک یا اچانک نہیں اٹھاتا۔ (۲) ایسے کسی قدم سے پہلے وہ الگ تھلگ رہنا شروع کر دیتا ہے۔ (۳) گھر کے لوگوں سے بھی وہ ملنا جلن بند کر دیتا ہے البتہ گھر کے لوگ اس تبدیلی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، رِشتوں میں دراڑیں یہیں سے شروع ہو تی ہیں۔ (۴) اس کے کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی آجاتی ہے۔ (۵) وہ اچانک بہت کم یا بہت زیادہ کھانا شروع کر دیتا ہے۔ اس نمایاں تبدیلی پر بھی کوئی دھیان نہیں دیتا۔ (۶) کھانے کے بارے میں گھر میں جب اس سے پو چھا جاتا ہے کہ وہ کھانے میں کیا پسند کرے گا تو عام طور پر اس کا جواب ہوتا ہے کہ’کچھ بھی‘۔ یہاں اس کے مزاج میں یہ تبدیلی اس لئے آئی ہے کہ وہ زندگی کو خیر باد کرنا طے کر چکا ہے، اس لئے اس کی کھانے پینے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ (۷) اس دَور سے گزرتے ہوئے وہ اکثر تنہائی پسند بن جاتا ہے۔ اپنے کمرے کے دروازے کی چٹخنی لگا کرحتیٰ کہ کمرے کی لائٹ بند کر کے وہ بالکل تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔ (۸) زندگی سے بے تعلق ہونے کا ٹھان چکا وہ نوجوان اکثر خالی الذہن بیٹھا رہتا ہے، اس حالت میں وہ ایک جگہ پر بیٹھ کر گھنٹوں  صرف خلاء میں گھورتا رہتا ہے۔ اس حالت میں بھی البتہ وہ اس کے ساتھ بیٹھے افراد کو باور کراتا رہتا ہے کہ وہ اس محفل میں جسمانی طور پر بھی حاضر ہی ہے کیونکہ اس محفل کے سارے لطائف پر وہ ہنستا مسکراتا بھی ہے۔
  زندگی سے ناطہ توڑنے کا طے کر چکے اس نوجوان میں کئی تبدیلیاں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں: (۹) وہ اپنے دوست واحباب سے ہمیشہ صرف مایوسی کی باتیں کرتا ہے۔ اس محفل میں کوئی اگر امّید افزاء بات کرتا ہے تو وہ وہاں سے اُٹھ جاتا ہے بلکہ اس کو مایوسی کے اندھیروں سے امّید کے اُجالوں کی طرف بلانے والے کو اپنا دشمن بھی سمجھنے لگتا ہے۔ (۱۰) اپنی زندگی کے تئیں کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے یہ نوجوان سگریٹ، پان، گٹکھا اور دیگرنشہ آور اشیا کا عادی بھی بن جاتا ہے۔(۱۱) مایوسی کا شکار ایسا نوجوان ہمیشہ صرف مایوسی اور ناکامی کے قصے کہانیاں اور مضامین پڑھتا ہے اور مسلسل مایوس کُن گانے بھی سنتے رہتا ہے۔ (۱۲) زندگی سے منہ موڑ نے کوتیار یہ نوجوان اپنے کاموں کو سمیٹنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد وہ گھر کے لوگوں سے معافی ما نگنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ اکثر ہر ایک سے الگ الگ معافی مانگتا ہے اس لئے سبھوں کو اس کی خبر نہیں ہو پاتی۔ بدقسمتی سے گھر کے لوگ اس کے اس برتاؤ کی ان تبدیلیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔
۱۴۔  اضطراب کے آگے کی کھائی ہے ’ڈپریشن‘
 ان معاملات کا علاج کیا ہے؟ ان ساری چیزوں کی روک تھام کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ گھر کا ماحول خوش گوار ہو۔ گھر کے ہر فرد کے ساتھ رابطے کی کڑی جُڑی ہوئی ہو۔ جہاں یہ کڑی ٹوٹ جاتی ہے وہاں غلط فہمی، بدگمانی اور پھر اس سے بھی زیادہ خطر ناک بیماریاں جیسے نفسانفسی اور خود غرضی شروع ہو جاتی ہے۔ مایوسی اور ڈپریشن انہی بیماریوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں کیونکہ جب کوئی یہ سوچنے لگتا ہے کہ صرف وہ کامیاب ہو جائے وہ سب سے زیادہ دھن دولت کمائے اور اس کے گُر کسی کو معلوم ہی نہ پڑے۔ اب اس خود غرضی میں جب اسے خاطر خواہ کامیابی نہ ملے تو وہ افسردگی و سراسیمگی کا شکار ہو جاتا ہے البتہ اسی دوران صحیح محنت و فکر کرنے والے افراد زندگی کی ریس میں آگے نکل جاتے ہیں جب  کہ وہ افسردہ و مایوس نو جوان مزید ایک بیماری کا شکار ہوتا ہے جس کا نام ہے’ حسد‘۔ یہ ساری نفسیاتی بیماریاں اس کے ذہن پر اس طرح قابض ہو جاتی ہیں کہ وہ زندگی سے منہ موڑنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کے بچّوں کی زندگی میں اضطراب یا افسردگی سے زیادہ بات نہ بڑھے کیونکہ اس کے آگے جو کھائی ہے اس کا نام ہے ’مایوسی اور ڈپریشن ‘۔
۱۵۔  مایوس طلبہ کی شناخت کیسے کریں ؟
 مایوس نوجوان کی شناخت کیسے ہو؟ وہ ہمیشہ بس سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کیفیت میں رہتا ہے۔ ناکام لوگوں کو اپنا رول ماڈل بناتا ہے۔ ایسا نو جوان اگر ڈائری لکھنے کا عادی ہے تو اس کا پیچھا کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی ڈائری میں مایوسی سے بھرے اشعار تو نوٹ نہیں کر رہا ہے؟ ناکامی اور ذہنی انتشار سے پُر تحریروں کو نوٹ کر رہا ہے؟ مبہم اور کوڈ الفاظ میں کچھ درج کرتا ہے؟ وہ اگر ڈرائنگ میں اچھا ہے تو یہ دیکھیں کہ تاریخ کے ظالم و سفّاک افراد کی تصویریں تو نہیں بنا رہا ہے ؟ اب ان جیسے نو جوانان اپنے سارے خیالات و جذبات کو اپنے موبائیل میں محفوظ کر رہے ہیں۔ والدین کی بھر پور نظر اس پر بھی ہونی چاہئے کہ ان کے بچّے انٹرنیٹ کی کِن کِن سائٹس پر جاتے ہیں  (بچّے اس کے لئے راضی صرف اس وقت ہو سکتے ہیں جب والدین بھی اپنے موبائیل کو کوئی تالہ یا کوڈ نہ رکھیں ) انٹرنیٹ ویسے بھی زحمت زیادہ اور رحمت کم ہے۔ہمیں یاد یہ رکھنا ہے کہ جس وقت ہم اپنے بچّے یا معاشرے کی خیر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، عین اُسی وقت دنیا بھر میں کئی شرپسند اپنے شر کو دنیا بھر میں عام کیسے کیا جائے اُس میں مشغول رہتے ہیںکچھ اس حد تک کہ مایوس افراد اپنے انتہائی قدم کیسے اُٹھائیں اُس کی ’رہنمائی‘ کیلئے بھی اُنھوںنے کئی ویب سائٹس کھول رکھی ہیں۔اگر کوئی نوجون ان قسم کی سائٹس پر جا چکا ہے اور دوستوں سے یا گھر والوں کو یہ کہتا ہے کہ وہ بس مذاق مذاق میں دیکھ رہاتھا یا خود کشی کرنے کے طریقے صرف معلومات میں اضافہ کے لئے پڑھ رہا تھا تب بھی یہ سمجھئے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ ایسی خطرناک اور زیاں رساں سائٹس پر کوئی یونہی نہیں جاتا۔
  آج کل تو زندگی سے منہ موڑنے والے سارے نوجوان اپنی ’پریشانیاں‘ صرف اپنے موبائیل کے نوٹ پیڈ پر تحریر کرتے ہوئے پائے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے موبائیل کو اپنا ساتھی سمجھتے ہیں اور اپنا ہمدرد بھی خیال کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی زندگی جس خطرناک موڑ پر آگئی ہے اس کا ایک بڑا ذمہ دار اس کا وہی اسمارٹ ساتھی ہے۔ والدین اگر اپنا موبائیل کھلا رکھتے ہیں تو پھر بچّے بھی اس کی تقلید کریں گے اور تب اس کے نوٹ پیڈ پر لکھی اس کی دل کی داستانیں آپ تک پہنچیں گی۔ اس طرح کئی راز بھی آپ پر عیاں ہوں گے یہاں تک کہ آپ اپنے بچّے کو بخوبی جانتے ہی نہیں تھے۔ کون چاہے گا کہ وہ اپنے بچّوں سے ’اُن کی نفسیات‘ اُن کے مزاج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے واقف نہ ہو؟ کون چاہے گاکہ رشتہ دار اورپڑوسی اُن کے بچّوں کے مزاج یا حرکتوں کی اطلاع اُنھیں دے؟ کون چاہے گا کہ فرسٹریشن اور  ڈپریشن کی آخری حد تک چھو جانے کے بعد اُن کے بچّوں کو کسی ماہرِ امراض نفسیات سے علاج کرانا پڑے اور سائنس و طب کے پاس اِ ن بیماریوں کا علاج صرف خواب آور گولیاں ہیں او رکچھ نہیں۔n (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK