اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہو تو اللہ کے محبوبؐ کی تعریف و توصیف کے ساتھ آپؐ پر ایمان اور آپؐ سے محبت کے اظہار کا اصل طریقہ آپؐ کی اطاعت کو اختیار کرنا ہے۔
EPAPER
Updated: September 22, 2023, 12:00 PM IST | Professor Dr Anis Ahmad | Mumbai
اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہو تو اللہ کے محبوبؐ کی تعریف و توصیف کے ساتھ آپؐ پر ایمان اور آپؐ سے محبت کے اظہار کا اصل طریقہ آپؐ کی اطاعت کو اختیار کرنا ہے۔
محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی دُنیا کے ہر گوشے میں ربیع الاوّل کے مہینے میں آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتے اور اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں اور جس طرح رمضان الکریم میں گھر گھر تلاوت ِ قرآن کی مبارک آواز فضائوں کو گرما دیتی ہے، اسی طرح اس ماہ میں ،کم از کم ایک دن کیلئے درود و سلام سے فضا گونج اٹھتی ہے۔دراصل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمان کا تعلق ہی کچھ ایسی نوعیت کا ہے کہ چاہے وہ سال بھر دین کی ہرتعلیم سے کتنا ہی غافل رہا ہو، اس مہینے میں وہ رسولؐ اللہ سے اپنی نسبت کو کسی نہ کسی شکل میں تازہ کرلیتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو چراغاں کر کے اپنے دل کی تاریکی میں روشنی کی کچھ رمق پیدا کرلیتا ہے۔ صدیوں کی غلامی اور آزادی کے بعد کی بے راہ روی بھی اسے اس راکھ میں دبی ہوئی چنگاری سے محروم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وہ خاص ترکیب ایمانی ہے جو ایک بظاہر ’سیکولر مسلمان‘ کو بھی شاتمین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مظاہروں ، دھرنوں اور پُرجوش بیانات پر آمادہ کرتی ہے اور مغرب و مشرق کے اصحابِ دانش کیلئے ایک معمہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ مغرب اپنی تمام تر مادیت، مغربیت اور لادینیت کے باوجود مسلمانوں کو اس نعمت سے محروم نہیں کرسکا۔
سوال یہ ہے کہ کیا حُب ِ رسولؐ کا بہترین اظہار صرف جلسوں ، جلوسوں ، بجلی کے قمقموں اور رنگارنگ محفلوں میں بہترین ترنم کے ساتھ مدحِ رسولؐ کرنے سے ہوسکتا ہے یا قرآن کریم انسانیت کی اس عظیم ہستیؐ سے محبت کے اظہار کا کوئی اور طریقہ تجویز کرتا ہے؟ قرآن کریم نے اس مسئلے کو محض دو آیات میں آسان بناکر قیامت تک کیلئے حل کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ان آیات مبارکہ کے مفہوم پر غور کیجئے، فرمایا گیا:
’’ اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔‘‘ (آل عمران: ۳۱)، اور
’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔‘‘ (النساء :۸۰) گویا اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہو تو اللہ کے محبوبؐ کی تعریف و توصیف کے ساتھ آپؐ پر ایمان اور آپؐسے محبت کے اظہار کا اصل طریقہ آپؐ کی اطاعت کو اختیار کرنا ہے، اور اس اطاعت کادائرہ پوری زندگی اور اس کے ہرعمل سے ہے، خواہ وہ ہاتھ ملانے کا طریقہ ہو یا مسکراتے ہوئے رُخِ مبارک کے ساتھ ہراہلِ ایمان کا استقبال کرنا ہو۔ وہ بازار میں فروخت ہونے والے مال کی کوالیٹی کا جانچنا ہو یا پڑوس میں رہنے والی کسی غیرمسلم ضعیف خاتون کی تیمارداری۔ یہی آپؐ کا خلق عظیم ہے اور یہ اس کی پیروی کا کرشمہ ہے کہ دوست ہو یا دشمن، آپؐ کا ہر سچا پیرو ہرکسی کا ہمدرد بن کر دل و نگاہ میں مقام پیدا کرلیتا ہے۔
قرآنِ کریم نے آپؐ کی صفاتِ حمیدہ کے حوالے سے جہاں اخلاق (خلق) کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہیں رحمۃ للعالمینؐ کے لقب سے بھی نواز ا ہے۔ اس رحمت کے یوں تو بےشمار پہلو ہیں لیکن موجودہ حالات کی روشنی میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم چار پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی جائے:
اوّلاً: اس رحمت کا تعلق اس نور اور ہدایت کے ساتھ ہے جو خود اپنے لئے فرقان، ذکریٰ اور قرآن جیسے نام استعمال کرتا ہے۔ آپؐ اس لئے رحمۃ للعالمینؐ ہیں کہ آپؐ تمام انسانوں کی ہدایت کیلئے کتابِ ہدایت اور سامانِ رحمت لانے والے ہیں ۔ یہ وہ کلام ہے جو انسانوں کیلئے سرتاسر رحمت ہی رحمت ہے۔ اس کی ہرہرآیت انہیں گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکال کر نور کی پاکیزہ کرنوں سے منور کردیتی ہے۔ اس کلامِ رحمت میں وہ ہستی جو الرحمٰن اور الرحیم ہے، اپنے بندوں کی نادانیوں اور بھول ہی نہیں ، جان بوجھ کر غلطیوں کا ارتکاب کرنے پر بھی رحمت و مغفرت کی اُمید جگاتا اور اپنے کمالِ کرم و رحمت سے ان کے بڑے بڑے گناہوں کو اظہارِندامت پر معاف فرمانے کا وعدہ فرماتا ہے، اور کس کا وعدہ اُس سے زیادہ سچا ہوسکتا ہے جو مکمل طور پر صدق اور حق ہے، جو اپنے بندوں پر ایک ماں سے بھی زیادہ شفقت و رحمت فرمانے والا ہے۔ ایسا کلام ِرحمت لانے والا انسانوں کیلئے رحمت نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ اسے اور کس نام سے پکارا جاسکتا ہے؟
دوسرا اہم پہلو جو مطالبہ کرتا ہے کہ مقامِ محمود پر فائز علم اور رہنمائی کے اس سرچشمے اور تمام انسانوں کو علم سے مالا مال کردینے والی اس ہستی کو رحمۃ للعالمینؐ کہہ کر پکارا جائے۔ آپؐ ہی کا عمل وہ اسوہ ہے جس میں ہر ہر قدم پر رحمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رحمت عالمؐ کے سامنے جب دو کاموں میں انتخاب کا معاملہ ہوتا تو آپؐ ، اپنی اُمت کو یُسر (آسانی) فراہم کرنے اور عُسر (دشواری، دقت) سے نکالنے کیلئے جو عمل زیادہ آسان ہوتا، اُسے پسند فرماتے۔
تیسرا اہم پہلو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نہ صرف انسانوں بلکہ تمام موجودات کیلئے رحمت و شفقت کا مظہر و مرکز ہیں ۔ انسانوں کے ساتھ تو آپؐ کا تعلق ِ رحمت کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ جب آپؐ ایک صحابیؓ سے وہ واقعہ سماعت فرماتے ہیں جس میں اُس صحابیؓ نے قبلِ اسلام اپنی بیٹی کو ایک غیرآباد کنویں میں ڈال کر مارنا چاہا اور وہ کنویں میں گرائے جانے کے باوجود اپنے شقی القلب باپ کو پیار سے پکارتی رہی، تو رحمۃ للعالمینؐ آبدیدہ ہوجاتے ہیں ۔ بات انسانوں تک محدود نہیں ، جب ایک باغ میں تشریف لے جاتے ہیں اور ایک اُونٹ کو تکلیف سے ہنکارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو رحمۃ للعالمینؐ اس کے لئے بھی رحیم و کریم ہونے کے سبب اس کے مالک کو نصیحت کرتے ہیں کہ اسے مناسب غذا دی جائے اور اس پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ پرندوں پر آپؐ کی شفقت و رحمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یوم الحساب آپؐ اُس چڑیا کے بھی وکیل ہوں گے جسے بغیر ضرورت ناحق نشانہ بنایا گیا۔ اسی وصف کو اصحاب ؓ سے جوڑ کر دیکھئے، یہ آپؐ کی محبت و شفقت تھی جس نے خادمِ حدیث و سنت کو ابوہریرہؓ (بلّی کے باپ) کی کنیت دلوائی۔
آپؐ کے رحمۃ للعالمینؐ ہونے کا ایک بہت نمایاں پہلو آپؐ کا دونوں عالموں ، یعنی اس دنیا میں اور آخرت میں واقع ہونے والے دوسرے عالم میں اپنی اُمت کیلئے سراپا رحمت ہونا ہے۔ قرآن کریم شہادت دیتا ہے کہ آپؐ مشرکینِ مکّہ کو اللہ کے عذاب سے بچانے کیلئے دعوتِ دین میں اتنا مصروف رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے متوجہ کیا کہ آپؐ ان کے غم میں خود کو نہ گھلائیں ، آپؐ ان پر وکیل نہیں ہیں ، آپؐ کاکام صرف ابلاغِ دعوت ہے۔ آپؐ کی یہی محبت و لگن تھی کہ جب تک آپؐ اس دنیا میں رہے، ہرہرعمل سے اُمت کیلئے آسانی کی شکل نکالی اور ایسے ہی عالمِ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے اُن بندوں کی شفاعت فرمائینگے جنہوں نے حق کی خاطر اپنے نفس اور مال کو راہ خدا میں لگایا۔ گویا آپؐ دونوں عالموں کیلئے رحمت ہی رحمت ہیں ۔
قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ جو ہستی ہرمعاملے میں انسانوں کیلئے رحمت ہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ قرآن کی طرح وہ بھی یومِ حساب فریاد کرے کہ اُسے اُس کے ماننے والوں نے تنہا چھوڑ دیا اور پسِ پشت ڈال دیا تھا اور محض سال میں ایک دن اس کی یاد میں جشن منا کر بزعم خود اس کی محبت و شفقت کا قرض اُتار دیا تھا؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور محبت کا اہم ترین تقاضا معروف اور بھلائی کے قیام کیلئے اپنے گھر میں ، معاشرہ میں ، اپنی تجارت میں ، اپنی سیاست میں ، غرض زندگی کے ہرمعاملے میں بندگی و اطاعت کو صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کیلئے خالص کردینا ہے۔ قرآن نے اس سلسلے میں جو قولِ فیصل سنایا ہے وہ ہرلمحے نگاہوں کے سامنے رہنا چاہئے:’’ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔‘‘ (محمد :۳۳)’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔‘‘(النساء :۶۱)