Inquilab Logo

ہلالِ رمضان کا پیغام اُمت ِ مسلمہ کے نام

Updated: March 17, 2023, 10:22 AM IST | Shamsul Haque Nadwi | Mumbai

یوں تو ہر مہینہ مَیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور کوئی نہ کوئی پیام لاتا ہوں

photo;INN
تصویر :آئی این این

یوں تو ہر مہینہ مَیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور کوئی نہ کوئی پیام لاتا ہوں، میری آمد قرب قیامت اور ناپائیداری ٔ عالم کا اعلان ہوتی ہے، میری گردش نے کتنوں کے عروج کو زوال، صحت کو مرض اور حیات کو موت سے بدل دیا ہے مگر میری آج کی آمد ایک خاص پیام اور آپ کی پریشاں نظری کے علاج کی غرض سے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں آپ کی آنکھوں میں جذب و شوق کی ایسی کیفیت محسوس کررہا ہوں جو پچھلی ملاقاتوں میں مَیں نے نہیں دیکھی۔ آپ مجھے کچھ حیران و پریشان نظر آرہے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپ کو اپنا بہت کچھ کھودینے کا احساس ہو، دوسری طرف آپ کی مشتاق و فریادی نگاہیں یہ پتہ دے رہی ہیں کہ اب آپ تجدید عہد وفا کرنے چلے ہیں اور مجھ سے کچھ واضح مشوروں کے طالب ہیں۔
 میرا پیام کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ میری آمد نے تو بارہا آپ کے تن مردہ میں جان ڈالی ہے اور آپ کی مدد کی ہے۔ آپ کے اسلاف نے ایسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیئے ہیں کہ آج کی مادہ پرست دنیا اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آپ نے بھی اگر عزم و حوصلہ سے کام لیا اور گوش دل سے میری بات سنی تو میں آپ کو شوق و مستی اور سوزِ دروں کی دولت سے نہال و مالامال کردوں گا اور آپ کی بہت سی الجھنیں خود بخود دور ہوجائیں گی، بڑے بڑے مسائل  حل ہوجائیں گے، زندگی کی الجھی ہوئی ڈور سلجھ جائے گی  اور زندگی جو بارِ دوش بنتی جارہی ہے، کرب و بے چینی، درد و کوفت، بغض و حسد، رنج و غم اور مایوسی و ناامیدی کا مرکز بن چکی ہے وہ سکوں آشنا، فرحت و مسرت، محبت و رافت، اخوت و بھائی چارہ، ایثار و تعاون ، اولوالعزمی  و بلند ہمتی، جوش و ولولہ اور قوت عمل کا ایک انمول ہیرا بن جائے گی جس کی سودے بازی اس کارگاہ ہستی اور عالم رنگ و بو میں کوئی قوم یا کوئی مادی طاقت اور کوئی دلفریب و دیدہ زیب تمدن نہ کرسکے گی اور آپ کا داغ دھل جائے گا جس کی وجہ سے آج آپ دنیا کی برادری میں سرنگوں اور شرمسار ہیں۔
  میں آپ کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی طرف بھی اشارہ کروں گا ، مگر جب آپ تجدید عہد وفا کرنے چلے ہیں تو اسے بھی کھلے دل اور شرح صدر کے ساتھ سنیں اس لئے کہ اس کے بغیر چارۂ  کار نہیں۔ آپ کا دامن آج اصل سرمایہ سے خالی ہوچکا ہے، آپ علم و تدبر کی صلاحیت کھوچکے ہیں، ضعف اعصاب، جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاپن آپ کا مزاج بن چکا ہے، معمولی معمولی سی بات جو آپ کے مزاج کے خلاف ہو آپ اسے برداشت نہیں کرسکتے، اس کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو نظرانداز کرجانا آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے، ہواوہوس آپ کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے، آپ کی اس مزاجی کیفیت نے گھر اور کنبہ سے لے کر علمی و سیاسی میدان غرض زندگی کے ہر شعبہ میں انتشار پیدا کررکھا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آپ اپنے ضمیر کو اس پر مطمئن رکھتے ہیں کہ جو وہ کررہا ہے وہ صحیح ہے۔ یہ بڑے خطرے کی علامت ہے۔ آپ پھر سے اپنے افکار و خیالات پر نظرثانی کریں اور یہ بھی یادرکھیں کہ اس کیلئے نفس کو بہت دبانا اور سدھانا پڑے گا، بہت کچھ کھونا اور پاپڑ بیلنا ہوگا تب کہیں زندگی کی وہ چول بیٹھے گی جو اپنی جگہ سے کھسک چکی ہے ۔ میں اسی کی مشق و تربیت کا پیام لے کر حاضر ہوا ہوں۔
 خوبیاں سب ہم میں ہیں، عیب سب دوسروں میں،  یہ وہ مہلک روگ ہے جس نے آپ کی قوت عمل کو مفلوج اور قبائے اتفاق و اتحاد کو تار تار کررکھا ہے۔ آپ ذرا غفلت کے پردوں کو ہٹائیے، خمار آلود آنکھوں کو ہوش و خرد کی چھینٹ دے کر غنودگی کو دور کیجئے اور دیکھئے ، آپ کے سامنے ہزاروں مسائل کھڑے ہیں اور بے شمار رکاوٹیں اور چٹانیں حائل ہوچکی ہیں۔
 آپ کے خلاف مکر و فریب اور سازشوں کے اَن گنت جال بچھائے جاچکے ہیں اور دشمن نے یہ سب اس ہوشیاری و دوربینی سے کیا ہے کہ آپ اس کی ہر ادا اور ہر حربہ کو اپنے موافق سمجھ رہے ہیں، آپ اس کی سحرانگیزیوں پر سرشار اور اس حد تک فدا ہیں کہ سب کچھ لٹا کر آپ نے اپنے آپ کو اس کی گود میں ڈال دیا ہے ، اس نے طفل شیرخوار کی طرح آپ کو تہذیب و تمدن کی نئی نئی زہریلی تحریکوں اور کانفرنسوں کے کھلونے دے کر بہلا پھسلا رکھا ہے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا جارہا ہے۔ کبھی تاویل و حیلہ بازی سے کام لے کر، کبھی جدید تغیرات و ضروریات کو وجہِ جواز قرار دے کر آپ میراث ابراہیمی سے نظر بچاتے ہوئے مغرب کے تازہ خداؤں سے رشتہ جوڑ رہے ہیں۔
 آپ کے ہاتھ اپنے ہی خون سے رنگین ہیں۔ قصر اسلام کی ایک ایک اینٹ آپ خود اکھاڑ رہے ہیں۔ اپنا سارا اثاثہ لٹا کر غیروں کے در پر کاسہ ٔ گدائی آپ ہی لئے کھڑے ہیں۔ آخر بے حیائی و بے ضمیری کی بھی تو کوئی حد ہونی چاہئے۔
  کل جن کو آپ نے بہت کچھ دیا تھا اب اپنا سب کچھ کھوکر انہیں سے مانگنا کیسا روح فرسا، حسرت ناک اور دلسوز منظر ہے۔ ڈوب مرنے کی بات یہ ہے کہ جن کا مقصد حیات ناؤ نوش، خردن و مردن اور عیش کوشی کے سوا کچھ نہیں وہ اپنے قومی معاملات میں کتنے متحد ، ایثار و قربانی میں کتنے آگے ہیں اور آپ جن کا مقصد احتساب ِ کائنات جہاں بانی و جہاں آرائی  ہے، جن کا مقصد حیات آگ کے شعلوں کو گل و گلزار بنانا ہے ، ظلمت کدہ ٔ عالم میں رشد و ہدایت کی شمعیں جلانا ہے ، کتنے منتشر اور باہم دست و گریباں ہیں۔  اگر کبھی کسی نقطہ پر متحد ہوتے ہیں تو بہت جلد اتحاد کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور اس کی ایک ایک کڑی الگ ہوجاتی ہے۔اس کا اصل سبب یہ ہے کہ آپ اندر کی کھوئی ہوئی چیز کو باہر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ جلسہ جلوس، احتجاج اور کانفرنسوں میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ کفر کے ہزار گناہ معاف، اس لئے کہ اس کی ایک ہی اور آخری ابدی سزا ہے اور ایمان کی ادنیٰ لغزش بھی قابل گرفت ہے اس لئے کہ اس کے ساتھ  أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ  ۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا  (جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے ۔ابراہیم:۲۴۔۲۵) کا مژدہ  ہے ، کفر سراپا ظلمت و تاریکی  اور ایمان نور مجسم ہے۔
 غور فرمائیے! افق عالم پر چمک کر میں نے آپ کے کتنے زبردست عالمگیر قومی اتحاد کا اعلان کیا ہے ۔ شہر ہو کہ گاؤں، سمندر کے پار، پہاڑوں کی اوٹ، مشرق سے لے کر مغرب تک جہاں کہیں بھی اسلامی برادری آباد ہے، اب سب کے سب کھانے پینے سے ہاتھ روک لیں گے ۔
  طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب  تک چاہے کتنے ہی لذیذ کھانے موجود ہوں کوئی ادھر ہاتھ نہ بڑھائے گا، کتنی ہی پاکیزہ حلال کمائی  ہو، اس کا کھانا حرام ہے۔ شاہ ہو کہ  گدا، امیر ہو کہ غریب، آقا ہو کہ غلام، سب ایک ہی حال میں ہوں گے ، سب بھوکے پیاسے ، سب کی زبانوں پہ تالے۔ نہ غیبت کر سکتے ہیں نہ جھوٹ بول سکتے ہیں۔ ہاتھ بندھے ہوئے ، فقر و فاقہ کے باوجود نہ چوری کرسکتے ہیں نہ حرام کو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ سب ایک ہی اذان سے افطار کریں گے ، ایک ہی اعلان صبح صادق سے پھر سب پابند ہوجائیں گے ۔ دن کے بھوکے پیاسے رات کو اپنے راب کے سامنے ہاتھ باندھے تراویح میں کلام پاک کا دَور کررہے ہوں گے ۔ تقدیم ہوگی نہ تاخیر، اسی کیفیت کے ساتھ پورے مہینہ سب کی زبانوں پہ ذکر و تلاوت، تسبیح و استغفار کے زمزمے جارہی ہوں گے ۔
  اب وعدہ کیجئے کہ آپ اس موسم بہار کو جو عبادت و ریاضت، اصلاح باطن، تزکیۂ نفس، سوز و ساز اور نازونیاز کے لئے خاص ہے، محض افطار و سحر کے اہتمام میں، دعوتوں اور روزہ کشائی کے جشنوں میں ضائع نہ کردیں گے۔ اپنے غریب و نادار بھائیوں ،بہنوں اور بیواؤں کا خیال رکھیں گے ، ان کو چھپ چھپا کر خوب دیں گے۔ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا  اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا  روزہ رکھنے والے کو، تو دیکھئے آپ ایسا نہ کیجئے کہ اس ثواب کو حاصل کرنے کیلئے صرف کھانے پینے اور اپنے ہی معیار کے لوگوں کی دعوت کرنے میں لگے رہیں، نہیں! بلکہ ناداروں کو مقدم رکھیں۔ 
  ہمیں معلوم ہے کہ جب یہ مہینہ آتا تھا تو نبی کریم ﷺ عام دنوں سے کہیں زیادہ حرچ کرتے تھے، دائیں بائیں،  آگے پیچھے ہر طرف لٹاتے تھے۔ روزے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ آپ کو غریبوں اور فاقہ کشوں کی بھوک اور جلن کا بھی احساس ہو، ضرورت مندوں کا خیال آئے۔
 روزہ کا اصل منشا یہ ہے کہ تزکیۂ نفس ، پاکیزگی، اخلاق و خواہشات نفس پر قابو  پانےاور گناہ و معاصی سے اجتناب کی صلاحیتیں اجاگر ہوجائیں، فتنہ و فساد ،ظلم و زیادتی اور بغض و حسد کی آگ بجھ جائے اور قلب مومن میں ایسی صلاحیت پیدا ہوجائے جس میں عناد و سرکشی ، سنگدلی و قساوت قلبی کا گزر نہ ہو ، فرض شناسی ، احساس ذمہ دار، ایفائے عہد اور امانت و صداقت کی جلوہ آرائی ہو،   صاحب حق کو اس کا حق ملے، مظلوم ظالم سے مامون اور اس کی عزت و ناموس محفوظ ہو، غرباء، مساکین، مجبور و نادار، لاورث و بے سہارا نہ رہنے پائیں، فرائض منصبی کی ادائیگی کا جذبہ ، دینی   و ملّی مسائل اور قومی ضروریات اور تقاضوں سے غافل و بے خبر  نہ ہونے دے، نیا خون ، نئی روح ، نیا جوش عمل پیدا ہو۔
  میں سارے اسلامی احکامات و عبادات کی مشق کا پیام لایا ہوں جو مہینے بھر ہوتی رہے گی اور زندگی بھر اس کو برتنے کا مطالبہ ہوگا ، اور شاید اس مہینہ کے ہر عمل پر بے تحاشا اجر و ثواب، فضیلت و مقبولیت کے وعدہ کا یہی راز ہے کہ  آپ لپک لپک کر اس کی طرف بڑھیں اور قلب و روح، ظاہر و باطن کو مزکیٰ و مصفیٰ کرکے نبیؐ کے اسوۂ حسنہ کی ایک ایک ادا اپنے اندر پیدا کرلیں کہ یہی آپ کا مقصد تخلیق اور آقا و غلام کے رشتہ کی کڑی ہے۔ میں نے دیکھا ہے  کہ جب میں اس مہینہ کی آمد کا اعلان کرتا تو اللہ کے نبیؐ عبادت و ریاضت کے لئے کمربستہ ہوجاتے ، رات رات نمازوں اور دعاؤں، ابتہال  وتضرع ، گریہ و بکا میں گزار دیتے۔  آپؐ کا سفیر نالۂ شب گیر عرشیوں تک پر رقت طاری کردیتا ۔ آپؐ ہی کو فرماتے ہوئے میں نے سنا ہے کہ روزہ  خاص میرے لئے ہے اس کا بدلہ میں دوں گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے پورے آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ فرمایا: جو گالی گلوج ، کذب و افتراء ، غیبت گوئی سے باز رہے ، مجھے اس کے روزے کی ضرورت نہیں، بھوک پیاس کے سوا اس کو کچھ نہ حاصل ہوگا۔ 
 یہ گویا اس بات کا کھلا ہوا اعلان ہے کہ روزے میں ہر ناپسندیدہ چیز سے احتراز و اجتناب ہی روزے کی اصل حقیقت پیدا کرتا ہے اور اس کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔
  میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس مہینہ میں ایک ایسی بھی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، پوری رات رحمت کے فرشتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے، دیکھئے وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ اس مہینہ کے آخری دنوں میں رحمت خداوندی اور زیادہ متوجہ ہوتی ہے ، اسی لئے تو ان دنوں میں اللہ کے نبی ؐ مسجد ہی میں معتکف ہوجاتے تھے۔  رمضان کے بعد عید ہے ، دیکھئے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ضرورت سے زیادہ عید کے اہتمام میں لگ جائیں اور یہ آخری عشرہ ضائع ہوجائے اور آپ بہت کچھ کھودیں۔
  یہ ہے میرا پیام جس کو بہت مختصر طور پر بیان کیا ہے ، اب اپنی ان کوتاہیوں کو پھر سے دیکھ لیں جن کو میں نے گنایا تھا اور میرے اس پیام پر غور فرمالیں، شاید آپ کو یہ یقین کرنے میں دیر نہ لگے کہ جو پیام میں نے آپ کو دیا ہے اسی میں آپ کے سارے امراض کا علاج موجود ہے۔ (تعمیر حیات)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK