اسلامی تعلیمات اس بات پر گواہ ہیں کہ دل صرف خون کا پمپ نہیں بلکہ فہم و ادراک کا مرکز ہے۔ اسلام نے اس پر بار بار توجہ دلائی، اب جدید تحقیق کے ذریعے ماہرین دل کے اندر چھپے ہوئے دماغ کی توثیق کررہے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 18, 2025, 12:20 PM IST | Maulana Anisur Rahman Nadvi | Mumbai
اسلامی تعلیمات اس بات پر گواہ ہیں کہ دل صرف خون کا پمپ نہیں بلکہ فہم و ادراک کا مرکز ہے۔ اسلام نے اس پر بار بار توجہ دلائی، اب جدید تحقیق کے ذریعے ماہرین دل کے اندر چھپے ہوئے دماغ کی توثیق کررہے ہیں۔
آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ انسان کے تمام اعمال کا دار ومدار انسانی عقل پر ہے کیونکہ سائنسی حقائق انسان کے خیالات اور اعمال کا مرکز دماغ کو قرار دیتے ہیں۔ ماہرین بالخصوص سائنسدانوں کا اب تک یہ بھی کہنا تھا کہ انسانی اعمال کے انتخاب میں دل کا کچھ کردار نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ انسانی دماغ کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ جسم کو کنٹرول کرنے کا نظام دماغ کے اندر ہے نہ کہ دل کے اندر جبکہ اس کے برعکس جدید سائنس دل کو محض خون پمپ کرنے والا ایک آلہ ہی قرار دیتی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک یہ دلیل دی جاتی رہی کہ انسانی دل نکال بھی لیا جائے تو مصنوعی دل کے ذریعے کام چلتا رہتا ہے مگر دماغ کو نکالنا یا بدلنا ممکن نہیں۔ لہٰذا آج تک کسی بھی انسان کا دماغ تبدیل نہیں کیا گیا اور کسی انسان کو مصنوعی دماغ بھی نہیں لگایا گیا۔ جبکہ انسانی دل کو تبدیل کرنے کے کامیاب تجربے ہوچکے ہیں اور آج یہ عمل بڑے پیمانے پر جاری وساری ہے۔
مگر قرآن اور حدیث میں انسانی دل کو انسان کے اعمال کا مرکز قرار دیا گیا ہے، اور قرآن وحدیث میں جگہ جگہ آیا ہے کہ انسانی اعمال سب کچھ دل کے اختیار میں ہیں۔ اسی طرح اچھائی اور برائی کا مرکز دل کو قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا انسان کے تمام اعمال کی اصلاح دل کی اصلاح پر موقوف قرار دیا گیا ہے اور انسانی اعمال کا فساد انسانی دل کے فساد سے وابستہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی بعض قرآنی آیات حسب ذیل ہیں :
’’تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے۔ ‘‘ (الحج:۴۶)
’’وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے۔ ‘‘ (اعراف: ۱۷۹)
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔ ‘‘(محمد: ۲۴)
ان آیات میں عقل، فہم اور تفکر وتدبر کا مرکز دل کو قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض آیات میں کفار کے خدائی نشانیوں کو نہ سمجھنے اور ہدایت نہ پانے کو ان کے دلوں پر تالے پڑجانے سے تعبیر کیا گیا ہے:
’’اسی طرح ہم سرکشی کرنے والوں کے دلوں پر مُہر لگا دیا کرتے ہیں۔ ‘‘(یونس: ۷۴)
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے سارے انسانی اعمال کی اچھائی اور برائی دونوں کا منبع انسانی دل کو قرار دیا ہے۔ یہ حدیث اس طرح ہے:
’’سن لو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو پورا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے؛ اور اگر وہ خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری، حدیث: ۵۲؛ صحیح مسلم، حدیث: ۱۰۷)۔ خلاصہ یہ کہ اسلام میں دل کو صرف جسم کا عضو نہیں بلکہ فہم، ادراک، اور ایمان کا مرکز سمجھا گیا ہے جو واضح طور پر انسانی اعمال اور تفکر و تدبر کیلئے ذمہ دار ہے۔ سائنسی حلقوں میں ان اسلامی نصوص کو اب تک جدید سائنسی حقائق کے خلاف سمجھا جاتا رہا۔ اور جدید پڑھے لکھے افراد اور خاص طور پر مستشرقین نے ان نصوص کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں قرآن و حدیث کے سائنسی اغلاط میں شمار کیا۔ مگر اس سلسلے میں ایک جدید سائنسی تحقیق نے سب کو حیران کرتے ہوئے ان اسلامی نصوص میں مذکور حقائق کی تائید وتصدیق کردی ہے۔ اس سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دل سے سوچنا محض ایک مجازی بات نہیں بلکہ حقیقت میں اس کا ایک گہرا مفہوم ہے، جسے سائنس نے بھی اب تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ تحقیق نیچر کیمونی کیشنز نامی جریدہ میں شائع کی گئی ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے:
ماہرین نے جدید ترین طریقوں کی مدد سے کی جانے والی تحقیق کے ذریعے دل کے اندر چھپا ہوا دماغ ڈھونڈ نکالا ہے۔ یونیورسٹی آف کولمبیا اور کیرولِنسکا انسٹی ٹیوٹ کے محققین کی ایک ٹیم نے دل کے اندر عصبی ریشوں (نیورونز) (Neurons/Nerve Cells)کا ایسا پیچیدہ دماغ دریافت کیا ہے جو دل کی طرح کام کرتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ دل کے اندر عصبی ریشوں کا ایسا پیچیدہ نظام پایا جاتا ہے جو بہت حد تک دماغ ہی کے انداز سے کام کرتا ہے۔ لہٰذا اب ماہرین کہہ سکتے ہیں کہ دماغ کی طرح دل بھی جسم کو بہت حد تک کنٹرول کرتا ہے اور احکام جاری کرتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق، دل کے اندر تقریباً ۴۰ ؍ہزار نیورونز (اعصابی خلیات) موجود ہوتے ہیں جنہیں ’’دل کا دماغ‘‘ Heart Brain بھی کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نیورونز کیا کام کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معلومات کو محسوس کرسکتے ہیں، انہیں پروسیس کرسکتے ہیں ؛ اور دماغ کے ساتھ دو طرفہ رابطہ رکھتے ہیں ؛ان تحقیقات سے یہ بھی پتہ لگا ہے کہ دل سے دماغ کو بھیجے جانے والے احکام یا اشارے (سگنلز) کی تعداد، دماغ سے دل کو آنے والے اشاروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ دل کے یہ اعصابی خلیات جذبات، فیصلہ سازی، اور ذہنی سکون پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ جسم کو کنٹرول کرنے کا معاملہ صرف دماغ کا میدانِ کار نہیں بلکہ دل بھی اِس میں برابر کا شریک ہے۔ دماغ ہمیں خالص حیوانی اور مادی سطح سے بلند کرتا ہے۔
ہم اپنی روز مرہ کی فیصلہ سازی میں دل اور دماغ کی کشمکش کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ لہٰذا دل کا تعلق اخلاقیات، تہذیب اور علم و فن کی نزاکتوں سے ہے جبکہ دماغ خالص معروضی انداز سے سوچتا ہے اور کام کرتا ہے۔ دماغ خالص عقلی بنیاد پر برابری کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، جبکہ دل بدلہ لینے سے ہٹ کر معاف کرنے کی روش پر چلنے کا قیمتی مشورہ بھی دیتا ہے۔
دماغ کہتا ہے کہ جس نے آپ کی مدد نہ کی ہوآپ بھی اُس کی مدد نہ کریں۔ ایسا کہنے میں دماغ اپنی جگہ درست ہے مگر دل کوئی اور ہی راہ سُجھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جس نے اچھا سلوک نہ کیا اُس سے بھی ہمیں اچھا ہی سلوک کرنا چاہئے۔ دماغ کا معاملہ خالص مادیت سے وابستہ ہے جبکہ دل ہمیں اِس حیوانی سطح سے بلند کرتا ہے تاکہ ہم معاشرے کو مضبوط بنانے کے حوالے سے اخلاقی اقدار کا احترام کرتے ہوئے ایسے کام کریں جن سے دوسروں کی زندگی آسان ہو اور ہمارے لئے لوگوں کے دلوں میں احترام بڑھے۔ اس جدید سائنسی تحقیق کا تعلق انسان کی اسی فیصلہ سازی کے مآخذ کو جاننے سے ہے۔
لہٰذا اب سائنس کہتی ہے کہ دل صرف خون پمپ کرنے والا عضو نہیں بلکہ وہ جذباتی ذہانت (اِموشنل انٹی جنس Emotional Intelligence ) میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ جبکہ قرآن صدیوں پہلے ہی ہمیں بتا چکا کہ ’’دل وہ ہے جس سے انسان سمجھتا ہے۔ ‘‘ اب سائنسی تحقیق اسی حقیقت کو اپنے انداز میں بیان کر رہی ہے۔ لہٰذا جدید سائنس اس حیران کن راز سے پردہ اٹھا چکی ہے کہ ہمارے دل کے اندر ایک نیورل (عصبی یا اعصابی) نیٹ ورک موجود ہے جو تقریباً ۴۰؍ ہزار نیورونز (اعصابی خلیات) پر مشتمل ہوتا ہے۔ کچھ ماہرین اسے ’’دل کا دماغ‘‘ کہتے ہیں۔ اس نیورل نیٹ ورک کو Intrinsic Cardiac Nervous System کہا جاتا ہے، جو دماغ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی افعال کو کنٹرول کرتا ہے، بلکہ یہ جذبات، یادیں، اور ردِعمل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی ہمیں یہ سچائی بتا دی کہ دل صرف خون کا پمپ نہیں ہے، بلکہ وہ فہم و ادراک کا مرکز ہے۔ جب ہم نیکی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یا دعا مانگتے ہیں ، دل دھڑکتا ہے، لیکن صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ وہ روحانی طور پر بھی جاگتا ہے اور یہ کہ آپ کا دل صرف دھڑکتا نہیں ہے بلکہ وہ جانتا بھی ہے۔
سائنس اب ان رازوں کو کھول رہی ہے جنہیں قرآن بیان کر چکا ہے، یہ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا علمی اعجاز ہے جو باور کراتا ہے کہ قرآن خالق کائنات کا نازل کردہ ایسا کلام ہے جو انسان کی ہدایت کے لئے پہنچایا گیا ہے۔
(مضمون نگار فرقانیہ اکیڈمی وقف بنگلور کے جنرل سکریٹری، اور مجلہ ’’تعمیر فکر‘‘ کے مدیر ہیں )