Inquilab Logo

قرآن مجید کا معجزا سلوب اور تفکر و تعقل کی اہمیت

Updated: June 26, 2020, 4:39 AM IST | Mufti Abu Ahmed Abdullah Ludhyanwi

اس میں تدبر اور غور کرنے والے کو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا متکلم ایسے بلند مقام سے بول رہا ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے نظم کا شکوہ، اس کی بے پناہ روانی اور اس کا فیصلہ کن اندازِ بیان اتنے حیرت انگیز طور پر انسانی کلام سے مختلف ہے کہ صاف طور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مالکِ کائنات کی آواز ہے

Quran Kareem - Pic : INN
قرآن کریم ۔ تصویر : آئی این این

  امت محمدیہ ﷺ اور علمائے عربیہ کا اجماع ہے کہ قرآن عزیز اپنے الفاظ و حروف، ترکیب وترتیب ، اغراض و مقاصد اور علوم و حقائق، ہر ایک امر میں معجز ہے۔ قرآن کی آیات اور آیات کے کلمات باہم مربوط ہیں۔ ہر آیت اور کلمہ کو اسی جگہ رکھا گیا ہے جہاں کہ ان  کا بے میل فطری مقام ہے۔ قرآن حکیم ایک دعویٰ ہے اور کائنات عالم اس کے لئے ایک عادل گواہ ہے جس کی شہادت سے یہ دعویٰ ثابت اور واجب التسلیم ہوجاتا ہے۔ یعنی قرآن کے مطالب و نظریات کو کائنات کے محسوسات سے تمثیل دے کر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ کائنات انسانوں کی تفہیم کے لئے ایک فکرگاہ ہے جس میں غور و فکر کرنے سے قرآن کے نظریات حل ہوتے ہیں اور قرآنی دعاویٰ کے لئے ایسے تمثیلی و تشبیہی اور برہانی دلائل ہاتھ لگتے ہیں جن سے قرآنی مقاصد و مطالب بآسانی ذہن میں اترجاتے ہیں۔
 قرآن عزیز اپنی وضع، اسلوب، انداز ِ بیان، طریق خطاب اور اپنے طریق استدلال میں بلکہ اپنی ہر بات میں، انسانوں کے وضعی اور صناعی طریقوں کا پابند نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ وہ اپنی ہر بات میں اپنا بے مثال فطری طریقہ  رکھتا ہے۔ یہی وہ بنیادی امتیاز ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام کے طریق ہدایت کو علم و حکمت کے وضعی طریقوں سے ممتاز کردیتا ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ دوسری کتب مقدسہ کی طرح  صرف کتاب اللہ ہی نہیں بلکہ درحقیقت وہ کلام اللہ بھی ہے۔ اور کلام صفت ِ الٰہی ہے اور صفات، ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہیں۔ جب کوئی کلام کسی سے صادر ہو تو یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں نے کلام کو پیدا کیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ فلاں سےکلام صادر ہوا۔ قرآن کریم پردۂ عدم میں نہ تھا کہ اس کو مخلوق کہا جائے بلکہ حق تعالیٰ ہی کے وجود کے ساتھ قائم تھا، وہاں عدم کا نشان نہیں تھا، اسی لئے قرآن کو مخلوق نہیں کہا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم تحریف،ترمیم اور تبدیلی سے محفوظ ہے اور معجز بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی شے نہیں ، ایسے ہی اس کے کلام کے مثل کوئی کلام نہیں۔ اور ہر شخص کا کلام اپنے متکلم پر دلالت کرتا ہے۔
  زیب النساء مرحومہ نے اسی کی ترجمانی کیا ہی عمدہ شعر سے کی ہے:
درسخن مخفی منم چوبوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
(میں اپنے کلام میں اسی طرح چھپی ہوئی ہوں جیسے پھول کی خوشبو اس کی پتی میں۔ جو بھی مجھے دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے وہ مجھے میرے کلام میں دیکھ لے۔)
  قرآن مجید، ایک غیرمعمولی پرشکوہ کلام ہے۔ اس میں تدبر اور غور کرنے والے کو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا متکلم ایسے بلند مقام سے بول رہا ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے نظم کا شکوہ، اس کی  بے پناہ روانی اور اس کا فیصلہ کن اندازِ بیان اتنے حیرت انگیز طور پر انسانی کلام سے مختلف ہے کہ صاف طور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مالکِ کائنات کی آواز ہے، کسی انسان کی آواز نہیں۔ اس کا پریقین اور باعظمت کلام خود ہی بول رہا ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے جس میں خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہوا ہے۔ قرآن میں کائنات کی حقیقت کا تعارف کرایا گیا ہے، انسان کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور زندگی سے متعلق تمام کھلے اور چھپے حالات پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ بس کچھ اس قدر قطعی انداز میں بیان ہوا ہے کہ واقعہ کا اظہار واقعہ کا مشاہدہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آدمی کو حقیقت کا علم نہیں دیا جارہا ہے بلکہ اس کو حقیقت کے سامنے لے جا کر کھڑا کردیا گیا ہے۔ وہ واقعہ کو کتاب کے صفحات میں نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اسکرین (عالمِ کائنات) کے اوپر اس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ کلام کی یہ قطعیت صاف ظاہر کررہی ہے کہ یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس کو حقیقتوں کا براہِ راست علم ہے۔ کوئی انسان جو حقیقتوں کا ذاتی علم نہ رکھتا ہو، اپنے کلام میں ہرگز قطعیت پیدا نہیں کرسکتا۔
 قرآن حکیم کو اللہ تعالیٰ نے اس کی آیات میں تدبر اور غور کرنے کیلئے نازل کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دعوت کی بنیاد ہی عقل پر رکھی گئی ہے۔ قرآن کے نزدیک عقل سے کام نہ لینا، فکری قوتوں کو معطل  کئے رکھنا، اندھادھند عقلیات میں ہر کسی کی پیروی کئے جانا اور خرافات و اوہام کے پیچھے چل کر بنا سمجھے بوجھے رسوم و رواج سے چمٹے رہنا انسان کا بہت بڑا عیب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو مذہب عقل کی کسوٹی پر پورا نہ اترے وہ جھوٹا ہے۔ نئی تحقیقات اور صحیح علوم سائنس و فلسفہ، قرآنی تعلیمات پر مہر تصدیق لگا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آج سائنس کے دَور میں کوئی نہیں بتا سکتا کہ قرآن کی فلاں بات  واقعات کے خلاف ہے اور قرآن کریم کا تصادم آج تک کسی بھی علمی حقیقت سے نہ ہوسکا۔ البتہ جن لوگوں نے اپنے فہم و عقل سے قرآنی فطرت کے خلاف معانی پیش کئے ہیں وہ قرآن کے معانی قرار نہیں دیئے جاسکتے اور نہ قرآن ایسے معانی و مطالب کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جو باتیں بطور دلائل اختیار کی گئی ہیں اس میں سے ایک نمایاں استدلال واقعات کا استدلال ہے جس کی اصل حقیقت ان کے ماننے والوں کو بھی معلوم نہ تھی۔ قرآن حکیم نے ان حقائق کو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ایک امّی کے ذریعے واضح کردیا اور اب جدید آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کا سلسلہ ان کی تصدیق کرتا جارہا ہے۔
 بہرحال تفسیر بالرائے کی ممانعت  سے مقصود یہ نہیں کہ قرآن کے مطالب میں عقل و بصیرت سے کام نہ لیا جائے جبکہ خود قرآن کریم کا یہ حال ہے کہ اول سے لے کر آخر تک تعقل و تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت سے مراد ایسی تفسیر ہے جو اس لئے نہ کی جائے کہ خود قرآن کیا کہتا ہے بلکہ اس لئے کی جائے کہ ہماری کوئی ٹھہرائی ہوئی رائے کیا چاہتی ہے اور کیسے قرآن کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کیا جاسکتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK