Inquilab Logo Happiest Places to Work

ماہِ محرم اپنے ساتھ کئی پیغام اور بہت سی یادیں لے کر طلوع ہوتا ہے

Updated: July 21, 2023, 2:15 PM IST | Abdul Ghaffar | Mumbai

رسول اکرم ﷺاور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدینہ ہجرت کے سارے مراحل ذہنوں میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ یکم محرم کو اس عظیم ہستی کی یادیں دلوں کو تڑپاتی ہیں کہ جن کے قبول اسلام کیلئےخودآپؐ دُعاگو رہتے تھے۔ ۱۰ ؍محرم نواسۂ رسولؐ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ آپؓ اور آپؓ کے جاں نثار ساتھیوں نے سر تو کٹوا لئےلیکن اُس اقتدار کی حمایت و تائید نہیں کی جو آپؐ اور خلفائے راشدین کی راہ سے انحراف کرگیا تھا۔ یومِ عاشورہ حضرت موسیٰ ؑاور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملنے کی یاد بھی تازہ کرتا ہے کہ جس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئےآپؐ نے ۱۰؍ محرم کو روزہ رکھا ۔ یہ دن شہادت ِ امام حسینؓ کی یاددلاتا ہے جنہوں نے حق کیلئے سرکٹادیا لیکن جھکایا نہیں۔

Hazrat Umar`s wish was that he should be martyred in his homeland, this prayer was also accepted and he was blessed with a final resting place near him!
حضرت عمرؓ کی تمنا تھی کہ وہ اپنے دیارِ حبیبؐ میں شہید ہوں، یہ دعا بھی قبول ہوئی اور آپؐ کے قریب آخری آرام گاہ بھی نصیب ہوئی!

ہجرتِ رسولؐ  تاریخ اسلامی کا اہم ترین واقعہ شہر یثرب کے شہر ِ روشن (مدینہ منورہ) میں بدلنے کا آغازہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے اپنا گھر بار، عزیز و اقارب، حتیٰ کہ خود  بیت اللہ سے دُوری بھی صرف اس ایک عظیم مقصد کی خاطر قبول کرلی کہ اللہ کے حکم کی پیروی کرنا ہے۔
سفر ہجرت کا آغاز ایک ایسے عالم میں ہوا تھا کہ سب قبائل، مکہ کے چنیدہ جنگجو قتل کے ارادے سے آپؐ کے گھر کا گھیراؤ کئے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا کہ مکہ سے نکل جانے کے بعد بھی اطمینان سے سفر نہیں کرنے دیا جائے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ بھاری انعام کی خبر سفر کی ہر منزل پر پیچھا کررہی تھی۔ لیکن اس عالم میں بھی آپؐ  اور رفیق سفر نے سفر کی ایسی بے مثال تیاری کی تھی کہ اُس دور میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ تین روز تک مکہ کے جنوب مغرب میں واقع غار ثور میں قیام کیا تاکہ دشمن تھک ہار کرنامراد ہوجائے۔ اس دوران مکہ کی ایک ایک خبر سے آگاہ رہنے کا انتظام بھی کیا اور خوراک پہنچتے رہنے کا بھی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان دو کاموں کے لئےآنے والے عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور اسماء بنت ابی بکر الصدیق کے قدموں کے نشان تک مٹا دینے کا انتظام کیا گیا۔ صدیق اکبر کا غلام ان کے پیچھے پیچھے بکریوں کا ریوڑ لے آتا کہ معزز ہستیوں کو تازہ دودھ بھی میسر آجائے اور آنے والوں کے قدموں کے نشان بھی مٹ جائیں۔ سرِراہ مل جانے والے بدوؤں سے گفتگو کرتے ہوئے خصوصی احتیاط برتی کہ بلاضرورت تعارف کسی دشمن تک نہ پہنچ جائے۔ اس دور میں کہ جب کوئی لفظ لکھنے کے لئےکئی جتن کرنا پڑتے تھے، سفر تو کجا حضر میں بھی لکھنے پڑھنے کے لوازمات فراہم کرنا   جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ آپ نے سامان کتابت زاد راہ میں شامل رکھا۔ سراقہ بن مالک نے جب سنا کہ چند کوس سے دو مسافر گزرے ہیں تو فوراً اندازہ لگالیا کہ وہی قریشی سردار ہوسکتے ہیں، جن کی گرفتاری پر سردارانِ مکہ نے بھاری انعام رکھا ہے۔ پیچھا کرنے، زمین میں دھنس جانے، اور قیصر و کسریٰ کے کنگن ملنے کی خوش خبری ملنے پر تقاضا کردیا کہ یہ بشارت مجھے لکھ کر عنایت فرما دیجیے۔ یارِ غارؓ نے اس عالم میں بھی عبارت لکھ کرنبی أمّیؐ کی مہر ثبت کردی۔سوچنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ رب کائنات اشارہ کرتا تو یہاں بھی کوئی بُراق پلک جھپکنے میں ساری منزلیں طے کروادیتا۔ مگر ارادۂ الٰہی یہ تھا کہ دنیا کو ہر ممکن انسانی اسباب فراہم کرنے کا درس و سلیقہ عطا کیا جائے۔
مکہ میں اہل ایمان کے لئےجینا محال ہوگیا تو آپؐ نے طائف کا رخ کیا، وہاں لہولہان کردیے گئے تو مکہ آنے والے ایک ایک قافلے کے پاس جاکر دعوت پیش کی۔ بالآخر بیعت عقبہ ہوئی، اور پھر چھے خوش نصیب افراد نے یثرب کی قسمت بدل دی۔ دعوت دین اور بندوں کو رب کی طرف بلانے کا یہ فریضہ آپؐ نے اس طور ادا کیا کہ سفر ہجرت کے دوران بھی اس کا اہتمام کیا۔ حضرت بُریدۃ الاسلمیؓ نے اسلام قبول کیا اور اپنے پورے قبیلے کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔    سفر ہجرت سے اللہ تعالیٰ کو قائد اور کارکنان کے لئےبھی اسوۂ حسنہ کا انتظام کرنا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قائد بھی سفر کی مشقت اور خطرات کی انہی منزلوں سے گزرے کہ جن سے کارکنان اور اُمتی گزررہے تھے۔ سفر ہجرت نے اپنے رب کی نصرت پر  کامل یقین و اعتماد کی اعلیٰ ترین مثال بھی پیش کرنا تھی۔ غار ثور میں دشمن سر پر پہنچ گئے۔ یارِ غارؓ نے سرگوشی کی: ’’یارسولؐ اللہ! ان میں سے کسی کی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف پڑگئی تو ہم گرفتار ہوجائیں گے۔ رسولِؐ حق نے کامل وثوق سے فرمایا:  ’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ غم نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ رب کائنات نے اس پورے مکالمے کو بھی نہ صرف قرآن کی وحی بنا دیا، بلکہ تاقیامت یہ اعلان بھی فرمادیا کہ رسولؐ کا ساتھ نہ دے کر اور ان کے راستے پر نہ چل کر خود ہی محروم رہو گے۔ انھیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکو گے۔ان کیلئےاللہ کافی ہے۔
ہجرت کی یاد سے شروع ہونے والا نیا سال ہر سال یہ منادی بھی کرتا ہے کہ اے بندگانِ خدا تمہیں ملنے والی مہلت ِ زندگی کا ایک سال مزید کم ہو گیا۔ سال گزشتہ میں روپزیر ہر کوتاہی پر استغفار کرتے ہوئے، نئے سال کو بندگی کے نئے عزم سے شروع کیجئے۔ نئے سال کا پورا دفتر خالی ہے، اسے گناہوں سے بچانا ہی اصل کامیابی ہوگی۔ گزشتہ ساری زندگی جو اجر و منزلت اور کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے، اب پھر موقع مل رہا ہے اسے غنیمت جانئے۔
شہادتِ عمر فاروقؓ
حضرت عمر بن الخطابؓ کواللہ نے حق و باطل کا فرق واضح کرنے کا ذریعہ اس طرح بنایا کہ لقب ہی ’الفاروق‘  ہوگیا۔
سیرتِ فاروقؓ بھی سیرتِ رسولؐ کا جزو لازم ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے اہل ایمان کو وہ ہیبت و عزت عطا ہوئی کہ اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نہ تو بیت اللہ کا طواف کرسکتے تھے نہ وہاں جاکر نماز ہی پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ عمر بن الخطابؓ نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘ وہی اہل مکہ جو کسی کے قبول اسلام کی بھنک پڑجانے پر اس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ دیتے تھے، اُن میں سے ایک ایک کے دروازے پر خود جاکر بتایا: سنو! مَیں مسلمان ہوگیا ہوں۔ یہ ’’صدمہ خیز ‘‘خبر سن کر وہ لوگ  اتنا کہہ کر دروازہ بند کرلیتے ’’نہیں … ایسا نہ کرو۔‘‘ مکہ کے اس تاریخی دن سے لے کر مدینہ میں شہادت کے آخری لمحے تک اس عظیم شخصیت نے اہل اسلام اور اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سے بڑھ کر ایک سنہری باب رقم کیا۔  ہجری تاریخ کا آغاز بھی آپ ہی کے دورِ امارت میں ہوا۔ ایک بار ایک تحریر آئی جس پر ’شعبان‘ لکھا تھا۔ آپؓ نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ یہاں ’شعبان‘ سے مراد گزشتہ شعبان ہے یا آئندہ؟ پھر فرمایا کہ ہمیں سالانہ تاریخ، یعنی کیلنڈر کا تعین کرنا چاہئے۔ مختلف تجاویز آئیں۔ حضرت علیؓ بن طالب نے ہجرتِ نبویؐ کا مشورہ دیا۔ آپؓ نے اس کی تحسین کی اور اسی پر سب کا اجماع ہوگیا۔
نیا ہجری سال شروع ہونے پر جائزہ لیں تو جدید سے جدید فلاحی ریاستوں کے بہت سارے اقدام وہ ہیں جو اس عبقری شخصیت نے شروع کئے تھے۔ ان تمام اقدامات کے پیچھے اصل قوت محرکہ بھی اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کی جنت کی طلب کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک ایک قافلے اور ایک ایک بچے کی خبرگیری سے لے کر قیصر ، روم اور کسری فارس کے تاج و تخت فتح کرنے تک وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ساڑھے دس سالہ دور خلافت میں اسلامی ریاست سب سے مضبوط عالمی قوت بن گئی۔ آخری حج کیا تو بے اختیار یہ دُعا بھی کی کہ پروردگار موت آئے تو شہادت کی موت آئے اور اپنے نبی کے شہر میں مرنا نصیب فرما۔ سننے والوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ شہادت کیلئےتو میدان جہاد کی طرف جانا ہوگا۔ آپ اپنے حبیب کے شہر میں شہید ہونا چاہتے ہیں..؟ ذی الحج کے چند ہی روز باقی تھے کہ محراب نبیؐ میں عین امامت  کے دوران امیر المومنین پر ایک مجوسی ابولولوہ فیروز نے دو دھاری خنجر سے حملہ کرتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔ ۱۳؍ مزید نمازی بھی زخمی ہوئے جن میں سے سات شہید ہوگئے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بعد میں قاتل کے بارے میں پوچھا کہ کون تھا؟ جواب سننے پر بے اختیار فرمایا: الحمدللہ کسی مسلمان نے اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ شہادت کی دہلیز پر بیٹھے امیر المؤمنین کے یہ چند الفاظ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت کی سنگینی واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما دنیا سے رخصت ہوئے تو تینوں کی عمر۶۳؍ برس تھی۔
یومِ عاشورہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو ایک روز یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ آج ۱۰؍محرم الحرام ہے اور آج کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ اور اس کے ظلم سے نجات دی تھی۔ ہم اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے بھائی موسٰی سے اظہار وفا و محبت کے لئےمَیں تم سے زیادہ حق دار ہوں۔ آپؐ نے بھی روزہ رکھا اور فرمایا کہ زندگی رہی تو یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کیلئےآئندہ سال اس کے ساتھ ایک اور دن ملا کر روزہ رکھوں گا ۔ (آئیے ہم بھی اپنے حبیبؐ کی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے عاشورہ کے دو روزے ضرور رکھیں)   سبحان اللہ آپؐ عبادات میں بھی قوم یہود کی مشابہت سے اتنے محتاط و خبردار تھے، لیکن آج ہم امتی گناہوں اور اللہ کی نافرمانی میں  تمام باغیانِ رب العالمین کی پیروی کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔
شہادت جگر گوشۂ رسولؐ
یہ المیہ اور سانحہ بھی ہماری تاریخ کا بدنما داغ بننا تھا کہ شخصی اقتدار کی خاطر نواسۂ رسولؐ اور ان کے پورے خانوادے سمیت صحابہ کرامؓ کو شہید کردیا گیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپؓ کے ساتھیوں کی شہادت جب بھی یاد آئے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر صاحب ِایمان اس پر غمگین ہوتے ہوئے سوچتا ہے کہ نواسۂ رسولؐ کو شہید کرنے والے اپنے نبیؐ کا سامنا کس منہ سے کر پائیں گے! ۱۰ ؍محرم کو نانا اور نواسوں کے مابین شفقت ومحبت کے وہ تمام مناظر بھی نگاہوں میں تازہ ہوجاتے ہیں،جو تمام صحابہ کرامؓ کے لئے راحت ومسرت کا سبب بنا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس تلخ باب سے سبق حاصل کرنے اور مزید ہلاکت وتباہی سے بچنے کے بجائے انہی اختلافات کو مزید ہوا دیتے ہیں کہ جن کا نتیجہ اُمت نبیؐ کے لئے کسی صورت فائدہ بخش نہیں ہوسکتا۔
حضرت امام حسینؓ اور ان سے پہلے حضرت امام حسنؓ نے آخری لمحے تک مسلمانوں کے مابین فتنہ واختلاف ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خط بھیج بھیج کر بلانے والے اہل کوفہ بھی جب بے وفائی کا عنوان بن گئے تو آپ نے مدینہ واپس لوٹ جانے سمیت ان کے سامنے وہ تمام ممکنہ صورتیں تجویز کردیں کہ جن کے نتیجے میں قتل وغارت سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن فتنہ جُو عناصر نے   ان میں سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ ان کی اکلوتی شرط یہ تھی کہ نواسۂ رسولؐ اور دیگر  صحابہ کرامؓ آمرانہ اقتدار کی بیعت کرلیں، امام ذی شان نے اس شرط کو یکسر مسترد کردیا۔ جامِ شہادت نوش کرلیا لیکن صفحۂ تاریخ پر یہ بھی ثبت کردیا کہ   ؎
قتل ِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK