Inquilab Logo Happiest Places to Work

ماہِ رمضاں اور اہل فلسطین کا امتحاں

Updated: April 08, 2023, 10:22 AM IST | Mumbai

عجب ستم ظریفی ہے کہ سب جانتے ہیں مگر کوئی نہیں جانتا کہ اسرائیلی فوج اہل فلسطین کو ناکردہ گناہی کی سزا دینے کیلئے سال کے بارہ مہینے بالخصوص ماہِ رمضاں میں کیوں اتنی بے چین اور بیقرار رہتی ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

عجب ستم ظریفی ہے کہ سب جانتے ہیں مگر کوئی نہیں جانتا کہ اسرائیلی فوج اہل فلسطین کو ناکردہ گناہی کی سزا دینے کیلئے سال کے بارہ مہینے بالخصوص ماہِ رمضاں میں کیوں اتنی بے چین اور بیقرار رہتی ہے۔ کئی سال کی روایت سامنے ہے۔ ماہِ مبارک شروع ہوتے ہی فلسطینی عوام پر جارحیت کا نیا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فورسیز نے جس طرح دھاوا بولا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو اسرائیلی فوج کے حرکت میں آنے کا سبب بنی ہو۔ جو کچھ ہوا بلا اشتعال ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی جو کچھ ہوا بلااشتعال ہی ہوا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسرائیل اور اس کے حکام سادیت یعنی دوسروں کو ایذا پہنچا کر خوش ہونے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ماہِ رمضاں میں زیادہ جارح ہونے کے پس پشت فلسطینیوں اور مسلمانوں کو روحانی ایذا پہنچانے کی بزدلانہ کوشش ہے تاکہ خود ساختہ تشدد یا کشیدگی کے باعث مسلمان فوت ہوں، زخمی ہوں اور اس قدر ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوں کہ پُرسکون عبادت سے محروم ہوجائیں۔ 
  ہم نے ’’الجزیرہ‘‘ پر کئی تصویریں دیکھی ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ اہل فلسطین مسجد اقصیٰ کے احاطے میں عبادت کیلئے جمع تھے۔ اُن سے غیر شعوری طور پر بھی کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جو احاطے میں مسلح اسرائیلی فوج کے داخلے کا سبب بنی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہوا منظم اور طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوا۔ فوج کا کہنا ہے کہ مسجد میں ایسے مشتبہ افراد چھپے ہوئے تھے جو اسلحہ سے لیس تھے۔ یہ بالکل بے بنیاد بات اور ناقابل قبول ہے۔ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسلحہ کے ساتھ داخلہ ممکن ہی نہیں ہے۔ تصویروں میں جو مصلیان ہیں وہ اچانک یلغار سے خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ خوفزدہ ہونے کا مطلب ہی اپنے سے زیادہ طاقتور کے سامنے بے بس ہونا ہے۔ ایک تصویر چند خواتین کی ہے جن کے سامنے بندوق بردار سپاہی کھڑے ہوئے ہیں۔ تصویر کے نیچے یہ کیپشن لکھا ہوا ہے کہ ’’چونکہ اسرائیلی فورسیز مسجد کے احاطے میں پوزیشن لے رہی ہیں اس لئے مصلیان باہر نکل رہے ہیں۔‘‘ تصویر میں کہیں کوئی مزاحمت دکھائی نہیں دیتی۔ ایک اور تصویر میں ایک نمازی کو، جو نوجوان معلوم ہوتا ہے، اسرائیلی فورسیز نے دبوچ رکھا ہے۔ ذرا سوچئے کہ رمضان کے مہینے میں، جو کہ صبروتحمل اور خدا کی عبادت اور اُس سے مانگنے کا مہینہ ہے، لوگ عبادت کے مقصد سے داخل ِ مسجد ہوں گے یا اسرائیلی فوج کو ستانے اور پریشان کرنے کے مقصد سے؟
  خبروں میں بتایا گیا ہے کہ بدھ کو ۲۴؍ گھنٹوں سے بھی کم وقت میں دوسری مرتبہ مسجد اقصیٰ کے احاطے کو اسرائیلی فوج نے اپنے ناپاک قدموں سے پامال کیا۔ ایک مصلی کا کہنا تھا کہ وہ (اسرائیلی حکومت) مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں سے آزاد کروانا چاہتی ہے ورنہ جس طرح کا تشدد برپا کیا گیا اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
 ایسی اور بہت سی باتیں لکھ لینے کے بعد یہ جملہ لکھنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ عالمی برادری خاموش ہے اور ہلکے پھلکے انداز میں مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہتی۔ اس کی منافقت کے سبب ہی نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ فلسطینیوں کا کوئی رمضان خیروخوبی سے نہیں گزرتا۔ اگر عالمی برادری حق اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہو تو اسرائیل کو فرار کا راستہ تک نہ ملے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK