یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ ایران اسرائیل جنگ ہندوستان سے ساڑھے چار ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہورہی ہے اس لئے ہم ہر طرح سے محفوظ ہیں اور کوئی چیز ہم پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
EPAPER
Updated: June 19, 2025, 6:01 PM IST | Editorial | Mumbai
یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ ایران اسرائیل جنگ ہندوستان سے ساڑھے چار ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہورہی ہے اس لئے ہم ہر طرح سے محفوظ ہیں اور کوئی چیز ہم پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ ایران اسرائیل جنگ ہندوستان سے ساڑھے چار ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہورہی ہے اس لئے ہم ہر طرح سے محفوظ ہیں اور کوئی چیز ہم پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ چونکہ دُنیا اب گلول وِلیج ہے اس لئے دُنیا کے مختلف خطے اور اُن خطوں کے ممالک بھی ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور کسی ملک میں کچھ بھی ہو، دیگر ممالک اس سے کسی نہ کسی سطح پر متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایران یا اسرائیل کا کوئی میزائل ہماری طرف نہیں آئے گا مگر اس جنگ کا معاشی اثر نہ صرف ہندوستان بلکہ دُنیا کے دیگر ملکوں پر بھی پڑے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس جنگ کے اثرات مرتب ہونے بھی لگے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
جنگ کی ابتداء کے دنوں ہی میں کچے تیل کی قیمت میں ۱۱؍ فیصد اضافہ ہواجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برینٹ کروڈ آئل ۷۵ء۳۲؍ ڈالر فی بیرل پر پہنچ گیا۔ اس سے قبل یہ قیمت ۶۷ء۸۷؍ ڈالر فی بیرل تھی۔ اس شعبے کے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جنگ، خدانخواستہ، طویل ہوئی تو فی بیرل قیمت ۱۲۰؍ ڈالر بھی ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں استعمال ہونے والے ایندھن کا بڑا حصہ چونکہ بیرونی ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے اس لئے دیسی بازار میں ایندھن کی قیمت یقینی طور پر بڑھ سکتی ہے جس کا اثر مہنگائی پر پڑے گا اور کسی ایک شے یا چند اشیاء کی نہیں بلکہ کم و بیش تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔
اس جنگ کے سلسلے میں آبنائے ہرمز کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ایران نے حسب انتباہ اس آبنائے کو بند کردیا تو اس کے نتائج بہت سے ملکوں کیلئے نہایت مضر ہونگے۔ خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع اِس آبنائے کے شمالی ساحل پر ایران ہے اور جنوبی ساحل پر متحدہ عرب امارات اور عمان۔ خلیجی ملکوں کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکہ اور دُنیا کے کئی دیگر ملکوں سے جوڑنے میں اس کا اہم کردار ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی مجموعی عالمی رسد کا ۲۰؍ فیصد حصہ اسی بحری راستے سے گزر کر اپنی منزل پر پہنچتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس گزرگاہ سے روزانہ ۲؍ کروڑ ۱۰؍ لاکھ بیرل کی نقل و حمل ہوتی ہے۔ اگر یہ آبنائے بند کردی گئی تو تیل کی قیمت تو بڑھے گی ہی، برآمدات کے متاثر ہونے سے خاص طور پر اُن ملکوں میں تیل کی شدید قلت کا بھی اندیشہ ہے جن کا درآمد شدہ تیل اس بحری راستہ سے آتا ہے۔ جانی و مالی نقصان کے علاوہ اس نقطۂ نظر سے بھی ایران اسرائیل جنگ کا فوری طور پر ختم ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایران نے اس سے قبل کے تنازعات کے دوران بھی آبنائے ہرمز بند کرنے کا انتباہ دیا تھا مگر اکثر اوقات اس نے قدم پیچھے لے لئے، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بار بھی ایسا ہوگا؟ ہمیں اُمید ہے کہ ایران اس اقدام میں عجلت سے کام نہیں لے گا مگر اسرائیلی جارحیت برقرار رہی اور ٹرمپ کا امریکہ، جو سو فیصد جانبداری سے کام لے رہا ہے، اس جارحیت میں خود بھی کود پڑا تو یہ نوبت آسکتی ہے، تب حالات مزید بگڑ سکتے ہیں، مہنگائی آسمان چھو‘ سکتی ہے اور اشیاء کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس جنگ کی وجہ سے تیل اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اُن اشیاء کی قیمتیں بھی قابو سے باہر ہوسکتی ہیں جن کا انحصار درآمدات پر ہے۔ الیکٹرانک آلات مہنگے ہوں گے، کھادوں کی قیمتیں بڑھنے سے فصلوں کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں اناج مہنگا ہوگا، کیمیکل اور پلاسٹک، انڈسٹریل سالٹ، خشک میوہ جات، خوردنی تیل، لوہا، اسٹیل، مشینیں نیز زیورات اور ہیرے جواہرات یہ تمام چیزوں کے دام بڑھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ نہیں تو اس سے ملتا جلتا اثر دیگر ملکوں پر بھی پڑے گا، اس لئے اسرائیل امریکہ اور ان کے حواری بھلے ہی کچھ اور سوچیں، تجارت و معیشت کے تئیں فکرمند ممالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ جنگ جاری رہے۔ خود امریکہ میں ٹرمپ کی اسرائیل نوازی پر تنقید ہورہی ہے اسی لئے ٹرمپ کی گیدڑ بھپکیاں زیادہ سنائی دے رہی ہیں۔