Inquilab Logo

اللہ سے محبت کے اسرارو رموز

Updated: January 22, 2021, 11:59 AM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

اللہ رب العزت کی محبت حاصل کرنے کیلئے نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنا اور اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ضروری ہے

Namaz - Pic : INN
نماز ۔ تصویر : آئی این این

اس دنیا میں بسنے والے تمام انسانوںکی ایک بنیادی اور مشترکہ ضرورت محبت ہے؛ چنانچہ ایک انسان جس طرح یہ چاہتا ہے کہ لوگ اُس سے محبت کریں، اسی طرح اُس سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے محبت کرے۔ یہ محبت مختلف انسانی رشتوں میں الگ الگ شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی تمام محبتوں کا منبع ذاتِ باری تعالیٰ ہے، اس لئے تمام بندوں پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی محبت کا محور و مرکز اللہ رب العزت کو بنائیں؛ اِس طور پر کہ جہاں دنیا کی تمام محبتوں کا مقصد اللہ رب العزت کی خوشنودی ہو وہیں ہرایک کے لئے محبوبِ حقیقی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہو۔ یہی وہ پہلو ہے جس کو شریعت میں انسانوں کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے  اور نبی اکرم ﷺ نے اِس تعلق سے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ اللہ رب العزت کی محبت ایمان کی علامت اور روحانی حلاوت کا ذریعہ ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حلاوت پا لے گا۔ پہلی یہ کہ خدا اور اس کا رسولؐ اسے ہر شے سے زیادہ محبوب ہوں۔ کسی شخص سے محبت صرف خدا کیلئے کرے یعنی دنیا کی کوئی غرض اسے مطلوب نہ ہو۔ جب خدا نے اسے کفر سے نجات دے دی تو پھر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح اس چیز کو ناپسند کرتا ہے کہ اسے آگ میں پھینکا جائے۔(مسلم)
یہاں ایک اہم سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ جب اللہ رب العزت سے محبت ضروری ہے اور صاحبِ ایمان کی صفات میں سب سے اہم صفت ہے تو ہم محبت الٰہی کے اِس سفر میں کس مقام پر کھڑے ہیں اور منزلِ مقصود تک پہنچنےکے لئے ہماری رفتار کیا ہے؟ کیا ہم اُن لوگوں میں سے ہیں جو صحیح معنوں میں اللہ رب العزت سے محبت کرتے ہیں یا ہماری محبت مختلف وجوہات کی بنیاد پر جھوٹی ہے؟ اِن سوالات کی کسوٹی پر اگر ہم اپنے آپ کو کھرا پاتے ہیں یعنی اللہ رب العزت کی محبت ہمارے دل میں جا گزیں ہے تو یقیناً یہ ہماری خوش بختی ہے جس کا صلہ ہمیں دونوں جہاں میں ملے گا اور اگر محبت الٰہی کی راہ میں ہمارے پائوں لغزش کے شکار ہیں تو پھر یہ ہمارے لئے بڑے خطرے کی بات ہے۔
ایک آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے، تو اللہ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گاجو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی…‘‘(سورہ مائدہ:۵۴) یہ آیت کریمہ ایک خاص پس منظر میں نازل ہوئی تھی۔  نبی کریم  ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے فوراً بعد کچھ لوگ اللہ رب العزت سے حقیقی محبت نہ ہونے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے۔ اِس فتنہ ارتداد کا قلع قمع حضرت ابو بکر صدیقؓنے کیا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ رب العزت کی محبت سے سرشار ایسی قوم وجود میں آئی جس نے دنیا کے اکثر حصے کو نہ صرف یہ کہ فتح کیا بلکہ اپنے اخلاقِ کریمانہ سے دنیا کو اپنا گرویدہ بھی بنایا۔ اِس آیتِ کریمہ کے پس منظر میں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن چونکہ قیامت تک آنے والے تمام وقتوں کے لئے ہے، اِس وجہ سے جب جب بھی اللہ کی محبت سے لوگ دور ہوں گے تب تب ایسے لوگوں کی بدقسمتی پر مہر لگے گی اور اِس کی جگہ اللہ رب العزت ایسے لوگوں کو سامنے لائیں گے جو اللہ کی محبت میں ڈوبے ہوں گے اور دنیا کی بقاء کی وجہ بنیں گے۔ اس لئے ہمیں اُس دن سے خوف کھانا چاہئے اور بچنا چاہئے جب  اللہ سے محبت میں ناکامی ہماری زبردست محرومی کا سبب بن جائے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دنیاوی محبت میں یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کو محبت کے بدلے میں محبت ملے یا اُس شدت کی محبت ملے جس شدت سے آپ محبت کرتے ہیں مگر اللہ سے محبت کا معاملہ دوسرا ہے۔ اس کے بدلے اللہ کی طرف سے ناقابلِ بیان اور بیش بہا محبت کا تحفہ ملتا ہے۔ مختلف آیات و احادیث سے یہ مضمون واضح ہوتا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میرا بندہ مجھ سے جو توقع رکھتا ہے اور جیسا گمان اس نے میرے متعلق قائم کر رکھا ہے ویسا ہی مجھے پائے گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ کسی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر مجھے یاد کرتاہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔‘‘ (بخاری ومسلم)
 اِس حدیث سے ہماری ادنیٰ سی محبت کے بدلے میں اللہ رب العزت کی جانب سے ملنے والی بیش بہا محبت کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ 
 اب یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم اللہ کی محبت اپنے دل میں کیسے جا گزیں کریں؟ اِس سوال کا جواب بھی ہمیں قرآن و حدیث سے ملتا  ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی محبت حاصل کرنے کیلئے بندوں کو جو یقینی راستہ بتلا یا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ سے محبت کریں یعنی اُن کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنے قول و عمل سے عزیز از جان ثابت کریں اور جاں نثاری کی اِس سیڑھی پر چڑھ کر اللہ رب العزت سے محبت کے مراتب طے کرتے جائیں۔ 
 اِسی بات کو اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران آیت ۳۱؍ میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے: ’’(اے حبیب) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یقیناًاللہ رب العزت سے محبت قائم کرنے کے باب میں اِس آیت کو بنیاد کا درجہ حاصل ہے جس کے اسرارو رموز کو شریعت کے مطالعے اور اہلِ دل کی صحبت میں رہ کر بہت ااسانی اور وضاحت کے  ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK