Inquilab Logo

حقوق اللہ،حقوق العباد اور حقوق النفس کی ادائیگی و توازن کا نام عدل ہے

Updated: February 03, 2023, 1:21 PM IST | Maulana Nauman Naeem | Mumbai

قرآن و سنّت اور اسلامی تعلیمات میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ مثالی معاشرے کا قیام، عدل کی بالادستی اور بلاتفریق مذہب و ملّت انصاف کی فراہمی کے بغیر ناممکن ہے

Paying the rights of the servants is also important.
حقوق العباد کی ادائیگی کو بھی اہم سمجھئے۔

 
قرآن و سنّت اور اسلامی تعلیمات میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔  مثالی  معاشرے کا قیام، عدل کی بالادستی اور بلاتفریق مذہب و ملّت انصاف کی فراہمی کے بغیر ناممکن ہے۔قرآنِ کریم میںا ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔’’عدل‘‘نہ صرف انسان کی فطرت میں شامل ہے،بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان سب کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب مبین میں عدل کا حکم بھی دیا۔ چنانچہ فرمایا گیا:’’اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتاہے۔‘‘ اسوۂ نبویؐ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ عدل کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور ریاست میں عدل وانصاف کا نظام بے لاگ احتساب کے اصول پر جاری ہو۔
ارشاد ربانی ہے:اور حساب لینے کے لئے اﷲ تعالیٰ ہی کافی ہےاوربے شک اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ پس اس دنیا کا اصل محتسب اﷲتعالیٰ ہی ہے۔(سورۃ النساء)مزید فرمایا :اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتاہے۔اس رب کریم نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ ایک بلند مرتبہ ذات بابرکات ،سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا،جن کی کل حیاتِ طیبہ اور تعلیمات تمام تر عدل کامل کا نمونہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز جب اللہ کے سایہ کے سوا کسی کا سایہ نہ ہوگا، حق تعالیٰ سات اشخاص کو اپنے قرب میں خاص سایہ مرحمت فرمائے گا۔ ان میں شرف اوّلیت امام عادل کو حاصل ہوگا۔(صحیح بخاری) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’عدل کرنے والے اللہ رب العزّت کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل و عیال کے معاملات میں اور جو کام ان کے سپرد ہوں، ان میں عدل کرتے تھے۔‘‘(نسائی) حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ عادل حاکم کا ایک دن زاہد کی ساٹھ سالہ عبادت سے بہتر ہے۔‘‘(طبرانی)یہ اس لئے کہ زاہد کی عبادت سے صرف اس کی ذات ہی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ عبادت میں استغفار ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ استغفار کی بناء پر بھی بخشے نہ بخشے۔ عادل چیف جسٹس یا عادل سربراہ انتظامیہ کے ایک فیصلے سے بسا اوقات بے شمار انسانوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور انصاف کی قدروں کو تقویت ملتی ہے۔ عادل حاکم کی ایک نیکی عظیم ثواب کا موجب ہوگی اور اس کے ایک ظالمانہ فیصلے کا گناہ بھی بے حد و حساب ہوگا۔
’’عدل‘‘ ایک نہایت جامع لفظ ہے۔ اس سے مراد انسان اور انسان کے درمیان عدل ہے۔ کمزور اور طاقتور کے درمیان عدل ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان عدل ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان عدل ہے۔ غرض حقوق اللہ، حقوق العباد، حقوق النفس کی ادائیگی و توازن کا نام عدل ہے۔ اگر تمام انسانوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد قوت کے بجائے عدل کو قرار دیا جائے تو ہماری پوری زندگی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی تمام شعبہ ہائے زندگی کی عمارت اخلاقی بنیادوں پر مستحکم ہوسکتی ہے اور فضائے عالم سے جنگ و ظلم کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔
احتساب کا مطلب حساب کتاب،گنتی،عیب و صواب کی جانچ پڑتال، بازپرس، دیکھ بھال،جائزہ اور روک ٹوک ہے۔احتساب دراصل اﷲ تعالیٰ کا منصب و مقام ہے ،وہی اس کائنات کو دیکھنے والا ،اس کا حساب کتاب رکھنے والا اور مخلوق کے اعمال کاجائزہ لینے والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی صفات و اسماء میں سے ایک نام ’’الحسیب‘‘ بھی ہے۔
نبی اکرمﷺ کو جس دور میں مبعوث کیا گیا۔ اس وقت ہر طرف ظلم وزیادتی اور ظلم وستم کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔عدل وانصاف اور برابری و مساوات کا تصور تک نہیں تھا۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے نبی اکرم ﷺکو عدل وانصاف کا علم بردار بنا کر مبعوث فرمایا، چناںچہ قرآن کریم میں آپ ﷺ کی زبانی اعلان کروایا گیا ’’ مجھے حکم دیا گیا کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کروں۔‘‘
نبی اکرم ﷺکایہ بے لاگ عدل اور احتساب کا تصور جب معاشرے میں جگہ پاتاہے تو وہ معاشرہ مدینۃالنبی کی پاکیزہ و مقدس ریاست بن جاتاہے۔ محسن انسانیت ﷺ نے دوستوں اور دشمنوں پر بہت احسانات کئے،لیکن عدل کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کی، محسن انسانیت ﷺ کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا، یہ سبق آپ ﷺ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیا سے عنقا ہوچکا تھا اور انسانیت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی۔
آپ ﷺ نے عدل کے اطلاقی پہلو یعنی بے لاگ احتساب کے لئے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایام میں آپ ﷺ نے خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکاسکتاہے۔ایک صحابیؓ آگے بڑھےاورعرض کیا، ایک جنگ کے موقع پرآپ ﷺنے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری کمر پر چھڑی رسید کی تھی۔ 
 جب آپ ﷺ نے اپنی کمر مبارک سے کرتا ہٹایا اور فرمایاکہ آؤ اپنا بدلہ لے لو،وہ صحابی آئے اور کمرمبارک سے لپٹ کر مہرنبوت کو بوسے دینے لگےاور پھر انہوں نے کہا، میں تو دراصل اس بہانے مہر نبوت کا بوسہ لیناچاہتا تھا۔ آپﷺ نے سود کو باطل قرار دیا، لیکن سب سے پہلے اپنےچچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود معاف کیا، خون معاف کرنے کی روایت کا آغاز کیا اور سب سے پہلے اپنے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کاخون معاف کیا اورغلام آزاد کرنے کا حکم دیا تو سب سے پہلے غزوۂ حنین کے موقع پر اپنے غلام آزاد کئے۔عدل و احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیا کے قوانین میں ناپید ہے۔آپﷺ کی شان یہ ہے کہ آپﷺ نے عدل، مساوات اور احتساب کو بنیادی اہمیت دی۔   انسانی معاشرے کی بقا کا دارومدار اس کے اجزا کے مابین توازن و اعتدال پر ہوتا ہے،جب ان کے مابین عدم توازن پیدا ہو تو اسے معاشرے کے انحطاط سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن حکیم نے عدل کی قدر پر زور دیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK