کشمیریت کا نام کسی لیڈر نے برسوں بعد لیا ہے

Updated: February 07, 2023, 10:20 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

سری نگر میں راہل گاندھی نے جو تقریر کی ، ہم اسے بہترین تقریروں میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ راہل نے اسی تقریر میں اس کشمیریت کا نام لیا جسے آخری بار ہم نے اٹل بہاری واجپئی سے ۱۹۸۰ ءکے آس پاس سنا تھا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

یوں تو ملک کے بیشترمشاہدین کی طرح ہم بھی بھارت جوڑو یاترا کو مسلسل دیکھ رہے تھے اور کئی بار ہم نے ان پر تبصرہ آرائی بھی کی تھی لیکن یقین کیجئے جب یہ یاترا جموں کشمیر کی طرف گامزن ہوئی تو ہمارا دل بھی کچھ نہ کچھ ڈرنے لگا تھا۔ کشمیر ملک کی سب سے برگشتہ ریاست ہے۔ آئین کی دفعہ ۳۷۰ ؍ہٹائے جانے کے بعد کشمیریت کا نام لینا بھی ملک سے بغاوت کا نام دے دیا جاتا تھا۔ در اصل گجرات کی نسل کشی اور کشمیر کی موجودہ کیفیت کی کسی بھی مخالفت کرنے والے کا آر ایس ایس نے اینٹی نیشنلزم کا نام دے دیا تھا اور بہت سے لوگوں نے، جن میں سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں، اسے یوں ہی مان بھی لیا تھا۔ کشمیر اب ایسا معاملہ ہے جس سے دوست اور دشمن دونوںحسب معمول فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں، یہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ہمیں نہ جانے کیوں بار بار پلوامہ کا واقعہ یاد آجاتا تھا۔ ہم یہاں اس وقت پلوامہ واقعہ کا محاسبہ نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمیں وہ سکھ پولیس افسر یاد آگیا، جس کا اس واقعہ سے مبینہ طور پر کچھ توتعلق بتایا جاتا تھا۔ اسے جب ایک اعلیٰ پولیس افسر نے گرفتار کرنا چاہا تو اس نے ان سے مبینہ طور پر کہا تھا کہ دیکھئے مجھے گرفتار نہ کیجئے۔ آپ نہیں جانتے کہ یہ کیسا کیس ہے اور کیوں کیا جارہا ہے؟ اعلیٰ پولیس افسرنے اسے گرفتار کر لیا تھا۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ گرفتار شدہ پولیس افسر اس وقت کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ ہمیں خیال آرہا تھا کہ کہیں ویسا ہی کوئی واقعہ نہ ہو۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ یاترا اپنی تمام تر کامیابیوں کے ساتھ ختم ہوئی۔ سری نگر میں راہل گاندھی نے جو تقریر کی ، ہم اسے بہترین تقریروں میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ راہل نے اسی تقریر میں اس کشمیریت کا نام لیا جسے آخری بار ہم نے اٹل بہاری واجپئی سے ۱۹۸۰ ءکے آس پاس سنا تھا۔راہل گاندھی نے اسی تقریر میں کشمیریت کی بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جسےلوگ کشمیریت کہتے ہیں وہ دراصل ہندوستان کے ہی کلچر کا حصہ ہے، کشمیریت اور ہندوستانیت میں کچھ بھی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے برملا طور پر تو نہیں کہا لیکن یہ صاف اشارہ دیا کہ وہ ۳۷۰ ؍کے ہٹائے جانے سے بالکل متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ریاست جموں کشمیر کو، بلکہ لداخ کو بھی یونین ٹیریٹری کے طور پر نہیں مانتے، یعنی وہ ان علاقوں کو مرکزی ملکیت ماننے کے حق میں نہیں ہیں۔ظاہر ہے کہ بات اس ریاست کے مکینوں کے دلوں میں گھر کرگئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب کشمیریت کو اینٹی نیشلزم کہنے والوں کو ایک چپی لگ گئی ہے۔
 بالکل یہی حال گجرات کی نسل کشی کابھی ہے،اب اس نسل کشی کی مذمت کرنے والے بھی پہلے سے بیشتر آواز بلند کر سکتے ہیں،گودھرا ٹرین سانحہ کے باوجود کہ لالو یادو کے محکمہ کی ایک رپورٹ بھی ہےجس میں کہا گیا تھا کہ یہ آگ کسی اندرونی حادثہ کا نتیجہ تھی لیکن ڈر کی وجہ سے یہ بات برملا نہیں کہا کرتے تھے لیکن بی بی سی کی دوڈاکیو منٹریز کی بدولت اب سارا ہندوستان یہی کہہ رہا ہے۔ جیسا کہ ان کالموں میں پچھلے ہفتہ کہا گیا تھا کہ یہ ڈاکیومنٹریز بہت سے لوگوں نے دیکھ لی ہے۔  ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں نہیںمعلوم کہ اس کے بارے میں کوئی سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے، ایسا نہیں لگا۔ بلکہ اب سپریم کورٹ میں بھی ایک اپیل درج کرائی گئی ہے کہ سرکار کو اس کے ممنوع قرار دینے کی کوشش کو ناکام کیا جائے ۔کیونکہ یہ اظہار رائے کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ مودی سرکار کے خلاف کوئی رٹ آتے ہی عدلیہ کی ٹانگیں کانپنا شروع ہوجاتی تھیں لیکن سپریم کورٹ نے اسے سماعت کیلئے منظور کر لیا ہے۔ اور اب یہی حال جموں کشمیر کے معاملہ کا بھی ہونا ہے۔ 
 کشمیر کے معاملہ میں چند اور باتیں بھی یاد رکھنا ہوںگی۔ جب ۵؍ اگست ۲۰۲۰ ءمیں لوک سبھا میں ۳۷۰ ؍کو ہٹائے جانے کی بابت بل کو لیا گیا ،و زیر داخلہ امیت شاہ نے دو باتوں کا خاص خیال رکھا تھا۔ ایک یہ کہ ہر بل کی طرح اس کے لئے بحث و مباحثہ کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا تھا کانگریس اور چند دیگر پارٹیاں چاہتی تھیں کہ اس بل پر پہلے بحث کی جائے لیکن امیت شاہ نے بل کو پیش کرتے ہی اس پر ووٹنگ کرا دی۔چونکہ بات پہلے ہی سے طے تھی ، اس لئے بل ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر ہی پاس ہو گیا۔ کانگریس نے بھی اگلے ہی دن پارٹی پالیسی کے تحت کہہ دیا تھا کہ اس بل کی موجودہ منظوری قبول نہیں ہے لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ ایک دوسری بات یہ بھی تھی کہ بل پاس ہونے سے پہلے ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس روہنٹن نریمن نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ دفعہ ۳۷۰؍ہٹانے کا کوئی آئینی جواز نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ دفعہ تھی، جو ریاست جموں کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ منسلک رکھنے کی تجویز رکھتی ہے۔ اگر اسے ہٹایا گیا تو حکومت ہند اور مہاراجہ کشمیر کے مابین ہونے والا معاہدہ خود بخود منسوخ ہو جائے گا اور اس طرح یہ ریاست اور ہندوستان ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔ لیکن بل کے پاس ہوتے وقت ان سب کوبھلا دیا گیا۔ کیونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے معاملہ کو اتنا مذہبی رنگ دے دیا تھا کہ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا ہندوتوا کی فورسیز کی طرف سے جھپٹ لی جاتی تھیں اور کہاجاتا تھا کہ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا خود بخود قوم دشمن قرار دیا جائے گا۔کشمیر کے مسئلہ پر جب بھی بات کی جائے تو ایک اور بات کو بھی ذہن نشین رکھنی ہوتی ہے۔ جب یہ مجوزہ بل لوک سبھا میں پاس کیا گیا تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ لداخ کو بھی ریاست سے الگ کرکے ایک یونین ٹیریٹری بنادیا گیا تھا ۔ اس پر چین نے سخت احتجاج کیا تھا، بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ جموں کشمیر اب صرف ہند اور پاک کا دو طرفی مسئلہ نہیں ہے ، اب یہ تین طرفی مسئلہ بھی ہے ، کیونکہ چین نے لداخ پر ہندوستان کا قبضہ کبھی منظور نہیں کیا تھا۔ اس لئے یہ طے ہے کہ اب نہ صرف ۳۷۰ ؍کے ہٹائے جانے کی بات ہوگی بلکہ اسی کے ساتھ چین کا مسئلہ بھی بیان میں شامل ہو گا۔ 
 یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ ملک کی کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ سی پی ایم کی اور کئی دوسری پارٹیاں بھی اس کی مخالفت میں شامل تھیں۔ کم از کم یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ کسی دوسری اہم سیاسی پارٹی نے اس بابت کوئی تنقید نہیں کی تھی۔ اس مسئلہ پر بھی ریٹائرڈ چیف جسٹس بوبڑے نے بھی عہدہ چھوڑنے سے پہلے ۳۷۰؍ کے خلاف دائر کئے جانے والے مقدمات کو بھی قابل سماعت کئے جانے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس کی سماعت کب ہوگی اور اس کا کیا فیصلہ ہوگا لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ راہل کی کہی جانے والی بات کے بعد اس کی شنوائی کرنے کا معاملہ اور شدید ہو جائے گا، مودی کے لئے اچھے دن نہیں ہونے والے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK