Inquilab Logo Happiest Places to Work

شریعت کو سمجھنے اور اس کے بعدعملاً برتنے کا نام حکمت ہے!

Updated: January 12, 2024, 12:49 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

علم و عقل کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت تک پہنچنے کو حکمت کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے کسی چیز کے تعلق سے جانکاری کا نام علم ہے اور اس علم کو عملاً برتنے کا نام حکمت ہے۔ قرآن مجید کے اعتبار سے شریعت کو جان اور سمجھ کر عملی زندگی میں اپنانے کا نام حکمت ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کسی بھی کام کے تعلق سے حکمت عملی کامیابی کی ضمانت ہے۔ دراصل جہاں بھی اور جب بھی انسان عقل کو استعمال کر کے حکمت کو بروئے کار لاتا ہے وہ نقصان سے بھی بچتا ہے اور کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں حکمت کو بہت ہی اعلیٰ مقام عطا کیا گیا ہے۔ چنانچہ شریعت کے جتنے بھی احکامات ہیں اگر ہم غور کریں گے تو ان کی حکمتیں حضرت انسان کو بامراد بنانے کی ضمانت دیتی ہیں ۔ چونکہ حکمت کسی بھی کام کو انجام دینے کیلئے بہت اہم ہے اس لئے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی حضور ﷺ کو حکمت سے نوازنے کا ذکر بارہا فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے ۔‘‘ (النساء: ۱۱۳)
 علم و عقل کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت تک پہنچنے کو حکمت کہتے ہیں ۔ اس اعتبار سے کسی چیز کے تعلق سے جانکاری کا نام علم ہے اور اس علم کو عملاً برتنے کا نام حکمت ہے۔ قرآن مجید کے اعتبار سے شریعت کو جان اور سمجھ کر عملی زندگی میں اپنانے کا نام حکمت ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اللہ جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں ۔‘‘ (البقرہ: ۲۶۹) اس آیت کریمہ میں حکمت کا ترجمہ دین کی سمجھ سے کیا گیا ہے۔ یہی وہ دین کی سمجھ تھی جس کی بنیاد پر صلح حدیبیہ کا عظیم الشان معاہدہ وجود میں آیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو حکمت میں کامیابی اور امن کا فلسفہ سمجھا دیا۔
 مذکورہ پس منظر میں ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کامیابی کے لئے محض علم کافی نہیں ہے جب تک کہ علوم و معلومات کو بہتر نتائج کے لئےحکمت سے مزین نہ کیا جائے۔ اس کلیہ کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کی موجودہ پسماندگی اور زبوں حالی کی وجہ صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ مسلمانوں نے اکثر معاملوں میں حکمت و دانائی کو پس پشت ڈال دیا ہے اور بلا سوچے سمجھے آگے بڑھنے کی خواہش میں ٹھوکر پر ٹھوکر کھا رہے ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے کاموں کو حکمت کی بنیاد پر انجام دیں اور ذیل کی حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلاف کی ڈگر پر واپس آجائیں ۔حضرت ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔“ (ترمذی)
 ملک کے موجودہ حالات میں حکمت مسلمانوں کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ بہت ساری پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ حکمت بزدلی کا دوسرا نام نہیں ہے۔ یہ دانشمندی کا استعارہ ہے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انہیں مختلف حربوں سے بر انگیختہ کرکے مخالف گروہ اپنی روٹی سینکنے کے فراق میں رہتا ہے، اس لئے مسلمان جوش پر ہوش کو غالب رکھ کر بہتر حکمت عملی سے اپنے مخالفین کو مات دیں ۔ اس سے مسلمان اس ملک میں اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے ساتھ ملک کے تئیں اپنی ذمے داری کوادا کرنے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے۔
  خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ تناظر میں ہم اسلامی حکمت کو بروئے کار لا کر ان لوگوں کے ساتھ جو مسلمانوں سے سخت عداوت اور دشمنی رکھتے ہیں رواداری کا معاملہ رکھنے کی کوشش کریں ، ان شاء اللہ اس حکمت عملی سے جلد ہی حالات ساز گار ہو جائیں گے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘ (سورہ فصلت: ۳۴)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK