Inquilab Logo

نام تھا گورنر کا اور کام تھا نوکری کا

Updated: February 21, 2023, 10:57 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

نریندر مودی کے زمانے میں دو طرح کے افراد گورنر بنائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جو آر ایس ایس کے لیڈر ہیں یا وہ جو ہر ریاست پر یہ نظر رکھیں کہ وہ مرکز کی گرفت سے آزاد تو نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ در اصل مرکز کے نوکر ہی ہوا کرتے ہیں،جنہیں گورنر کا نام دے دیاجاتا ہے تاکہ ان کا بھرم باقی رہ سکے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے ۔ میرے خیال میں شاید اتنا ہی پرانا جتنی ہماری آزادی پرانی ہے۔ پہلے بھی جب مختلف ریاستوں کے گورنر بنائے جاتے تھے تو ان میں دو طرح کے افراد شامل ہوتے تھے۔ ایک وہ جن کو مرکزی حکومت ان کی پرانی خدمات کو دیکھ کر انہیں فیضیاب کرنا چاہتی تھی۔ دوسرے وہ لوگ جو بہت لائق فائق اور سماجی مرتبہ میں بہت بلند ہوتے تھے۔ لیکن پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ ہماراخیال ہے کہ یہ سلسلہ مسز اندرا گاندھی نے بند کیاتھا ۔ انہوں نے ایسے افراد کوگورنر بنایا جو ریاست کے لیڈروں خصوصاً چیف منسٹر کی جاسوسی کریں کہ کہیں وہ اپنے رتبہ سے بلند ہو کر پرائم منسٹر بننے کی تو نہیں سوچ رہے ہیں یا پھر وہ اگر غیر کانگریسی ہیں تو کہیں وہ مرکز کے خلاف تو کوئی سازش نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن نریندر مودی نے کانگریس کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ ان کے زمانے میں دو طرح کے افراد گورنر بنائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جو آر ایس ایس کے لیڈر ہیں یا وہ جو ہر ریاست پر یہ نظر رکھیں کہ وہ مرکز کی گرفت سے آزاد تو نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ در اصل مرکز کے نوکر ہی ہوا کرتے ہیں،جنہیں گورنر کا نام دے دیاجاتا ہے تاکہ ان کا بھرم باقی رہ سکے۔
 بہر حال اب اچانک تین ریاستوں سمیت تیرہ گورنر بدلے گئے ہیں یا یوں کہئے کہ لگائے گئے ہیں۔ اس اچانک تقرری پر چاروں طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ جو نئے گورنرلگائے گئے ہیں ان کی لیاقت اور قابلیت کا کیا معیار ہے، لیکن کچھ تعیناتیاں تو ضرور قابل ذکر ہیں۔ ان میں سب سے پہلے مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری ہیں۔ ان کی مرکزی سرکار اور وہ بھی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی نوکری میں ایک عرصہ تک مہاراشٹر میں رو بہ سوال رہے۔ ان کی اس نوکری کا سلسلہ اسی دن بلکہ اسی رات شروع ہوگیا تھا جب یہ بات سامنے آگئی تھی کہ مہاراشٹر میں سورج کی پو پھٹنے سے پہلے ہی یہ اعلان ہو جائے گا کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ انہوں نے صبح ہونے سے پہلے ہی این سی پی کے لیڈر شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار کو نہ جانے کن بہانوں سے گورنر کی رہائش گاہ پر بلایا اور انہیں ڈپٹی چیف منسٹری کا حلف دلادیا ۔ خیال یہ تھا کہ جب تک شرد پوار کو اس کا علم ہوگا تب تک بات کافی آگے جا چکی ہو گی۔ شاید یہ بھی خیال تھا کہ مہاراشٹر کا اقتدار بہر حال این سی پی کے گھر کا معاملہ ہوگا اور یہ دیکھ کر کہ ڈپٹی چیف منسٹر ان کے ہی گھر والے ہیںشاید شرد پوار بھی چپ ہو جائیں، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ شرد پوار نے اجیت پوار کو پیغام بھجوایا کہ این سی پی ان کی مدد نہیں کرے گی۔ اجیت پوار یہ سنتے ہی واپس اپنے خیمے میں آگئے اور یہ پہلی سازش ناکام ہوگئی۔پھر ادھو ٹھاکرے چیف منسٹر بنے اور کوشیاری نے اپنی ہوشیاری شروع کردی۔ وجہ یہ تھی کہ ادھوٹھاکرے نے امیت شاہ کو جھوٹا کہا تھا اور عوام بھی انہیں جھوٹا ہی سمجھ رہے تھے۔ امیت شاہ کو یہ بات بہت ناگوار تھی۔ چنانچہ کوشیاری نے کئی بار کئی کوششیں کیں اور پھر انہیں شندے کی شکل میں ایک مہرہ مل بھی گیا اورپھراس کے بعد جو ہوا وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اسی بیچ کوشیاری سے کچھ غلطیاں بھی ہوگئیں۔ انہوں نے ایک اور کمال ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے شیوا جی کے معاملے میں کچھ غیر ذمہ دارانہ باتیں کہہ دیں۔ ظاہر ہے کہ مہاراشٹر میں اس کا گہرا اثر ہوا۔ ادھو ٹھاکرے اور دوسرے شیواجی کے حمایتیوں نے اس کوخوب اچھالا۔ پھریہ بات سامنے آ لگی کہ کوشیاری کی وجہ سے مرکزی سرکار کی ساکھ کونقصان پہنچ رہا ہے۔ آخر بی جے پی کی نام نہاداعلیٰ کمان کو انہیں یہاں سے نکل جانے کا مشورہ دینا پڑا۔ 
 میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک کا ہٹایا جانا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ستیہ پال ملک یو پی کے ایک اہم جاٹ لیڈر ہیں۔ مودی نے انہیں پہلے ریاست جموں کشمیر کا گورنربنایا۔ وہاں انہوں نے کوئی ایسی الٹی سیدھی حرکت نہیںکی جس سے عوام کوکوئی مشکل پیش آئے۔ نہ ہی انہوں نے نوکری کرتے ہوئے وہاں کی لیڈر شپ کو ستایا۔ صرف ایک بار جب محبوبہ مفتی انہیں ایک مقررہ تاریخ پر کچھ دستاویز بھیجنا چاہتی تھیں تو اچانک ان کی رہائش گاہ کے سارے پرنٹرس اور دوسرے آلے خراب ہو گئے تھے اور محبوبہ کے وہ دستاویز مقررہ وقت پر انہیں نہیں مل سکے تھے۔بعد میں انہیں میگھالیہ ٹرانسفر کر دیا گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب ملک میں زبردست کسان آندولن چل رہا تھا۔ ستیہ پال ملک چونکہ ایک کسان لیڈر بھی تھے، اس لئے انہوں نے کئی بار کسانوں اور مودی سرکار میں مصالحت بھی کرانا چاہی، لیکن مودی جی نے ان کی باتیں نہیں مانیں۔ ایک بار تو ملک نے یہ بھی کہا کہ وہ کسانوں کے بارے میںاپنی تجویز سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مودی جی چاہیں تو وہ فوراً استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں ۔ لیکن چونکہ وہ ایک اہم جاٹ لیڈر تھے اس لئے مودی نے انہیں ہٹایا تو نہیں لیکن انہیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ لیکن اب انہیں رکھنا منظور نہیں تھا، اس لئے انہیں ہٹا تو دیا، لیکن ان پر کوئی اور ایکشن نہیں لیا گیا ۔
 ایک دلچسپ تقرری سپریم کورٹ کے صرف دو ماہ پہلے سبکدوش ہونے والے جسٹس عبدالنظیرکی بھی ہے۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرہونے والے ججوں میں سے وہ تیسرے ہیں جنہیں فوراً ہی انعام دیا گیا ہے۔ان سے پہلے جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس ارون مشرا تھے جنہیں انعامات سے سرفراز کیا گیا تھا۔ہم وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے لیکن یہ وہی جج ہیں جنہوں نے ابھی حال ہی میں مودی سرکار کے خلاف نوٹ بندی کے فیصلے میں مودی جی کو تسلی دی تھی۔ ساری دنیا نوٹ بندی کو ایک تباہ کن فیصلہ کہتی ہے، لیکن اس طریقۂ کار کو درست کہنا بھی اس وقت مودی  کو راحت پہنچانا تھا۔ یہ وہی جج بھی ہیں جو ایودھیا کے فیصلے میں بھی شامل تھے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ انہیں اس کا بھی انعام دیا گیا تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ مودی جی نے آج تک کسی مسلمان کو اس لئے نہیں نوازا کہ اس کی کوئی سماجی حیثیت تھی یا پھر اس کی قومی خدمات بہت عظمت کا درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے صرف ان مسلمانوں کو نوازا ہے ، جو کچھ ایسی باتیں کہتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ سنگھ پریوار کے من کو بھاتی ہیں۔ مختار عباس نقوی کو بھی اس وقت ترقیاں ملیں جب انہوں نے یہ کہا کہ جو مسلمان بیف کھانا چاہتے ہیں، بہتر ہے کہ وہ سعودی عرب یا پاکستان چلے جائیں۔ ایک اور لیڈر شہنواز کو بھی ایسی ہی باتوںکیلئے نوازا گیا۔ محمد عارف خان کیرالاکے گورنرہیں اور شب وروز وہاں کی حکومت کو ہی گرانے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ بہر حال ہمیںنہیں معلوم کہ موجودہ تیرہ گورنر واقعی گورنر ہیں یا اب بھی نوکر ہیں۔ ہم صرف سوچ سکتے ہیں کہ وہ گورنری کو نوکری میں نہیں تبدیل کریں گے۔

governor Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK