Inquilab Logo

سمندر بھی ہے ہندوستانی سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز

Updated: September 22, 2023, 1:31 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ہندوستان دنیا کو یہ پیغام دے کہ نظام قدرت میں مداخلت اور مخلوقات کو نقصان پہنچائے بغیر بھی وہ اپنی مہم جوئی جاری رکھ سکتا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

انسان اپنے وجود یا جسم و روح کے بہت سے حقائق کو تو سمجھ نہیں پایا مگر وہ اپنے زیر قدم زمین کے نیچے اور دور سے نظر آنے والے سیاروں کے اسرار کو سمجھنے میں مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ کاش وہ یہ بھی سیکھ لیتا کہ زمین پر رہتے کیسے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ سمندر آبادی سے جہاں جتنا قریب ہے وہاں گندگی اتنی ہی زیادہ ہے۔ اس میں کئے جانے والے دھماکوں نے تو اس کو اور زیادہ خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۱۸؍ ویں اجلاس عام سے پہلے ۲۰۰؍ سائنسدانوں کے دستخط سے ایک خط جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یوں تو سمندر اور سمندری مخلوقات کو کئی طرح کے اور غیر معمولی خطرات لاحق ہیں مگر سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ سمندر کے اپنی استطاعت سے ۵۰؍ گنا زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے سبب سمندری درجۂ حرارت نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ تیزابیت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور سمندری مخلوقات پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے لہٰذا قانون سازی اور ضابطوں کے نافذ کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہر راستے کو روکا جاسکے۔
 اسی دوران یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ چندریان۔۳؍ کی کامیابی اور آدتیہ۔ایل۔۱؍ کی تیاری کے بعد ہمارے ملک نے سمندر کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے اسرار سمجھنے کیلئے ’’سمندریان‘‘ مشن کی تیاری اور تجربہ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت ۲۰۲۴ء یعنی اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں سمندر کی پانچ سو میٹر گہرائی میں تجربات کئے جائیں گے۔ ہمارے سائنسدانوں نے جون ۲۰۲۳ء میں بھی ایک تجربہ کرنے کی کوشش کی تھی جو تجربہ ناکام رہا تھا۔ نئے منصوبے ’’متسیہ ۶۰۰۰‘‘ میں کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ جون ۲۰۲۳ء میں جو کچھ ہو چکا ہے وہ دوبارہ نہ ہو۔ اس نئے منصوبے کے تحت ’’سمندریان‘‘ یعنی ملک میں ہی تیار کی ہوئی ’’سب مرسیبل‘‘ میں ۳؍ اشخاص کو بٹھا کر سمندر میں ۶؍ ہزار میٹر کی گہرائی تک بھیجا جائے گا۔ جو لوگ سمندر میں ۶؍ ہزار میٹر کی گہرائی تک جائیں گے ۹۶؍ گھنٹے تک ان کو آکسیجن ملتی رہے گی۔ ۶؍ ہزار میٹر کی گہرائی میں اس مشین پر ۶۰۰؍ گنا زیادہ دباؤ ہوگا جس پر بٹھا کر یہ لوگ نیچے بھیجے جائیں گے اس لئے اس مشین کو مختلف معدنیات کی آمیزش سے ۸۰؍ ملی میٹر موٹی ٹیٹانیم سے تیار کیا جائے گا۔ یہ مشین ۲۵؍ ٹن وزنی ۹؍ میٹر لمبی اور ۴؍ میٹر چوڑی گولے کی طرح ہوگی۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشین ٹیکنالوجی یعنی NIOT کے سائنسداں اس کو تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
 ہر ملک کی اپنی سمندری سرحدیں ہیں مگر سمندر پر قبضہ یا حق تصرف کے لئے مختلف ملکوں میں کشمکش بھی جاری رہتی ہے اس لئے اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل سی بیڈ اتھاریٹی (آئی ایس اے) نے ریسرچ کیلئے کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ ۱۴؍ ملکوں کو اجازت دی ہے۔ چین، روس، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ، بھارت، برازیل، جاپان، بلجیم وغیرہ گہرے سمندر میں تحقیق کریں گے۔ تحقیق یہ ہوگی کہ گہرے سمندر میں کام کرنے کے کیا وسائل دستیاب ہیں اور ان کو کس طرح ترقی دی جاسکتی ہے۔ تحقیق کا دوسرا مقصد یہ ہوگا کہ ’بلیو اکنامی‘ یعنی ایسی معیشت کو جو پوری طرح سمندری وسائل پر منحصر ہو ترقی دی جائے۔ یہاں ایک سوال اور اس کا جواب دونوں موجود ہے کہ اگر بھارت ایسا کوئی مشن نہ شروع کرے تب بھی دوسرے ممالک تو شروع کریں گے ہی۔ سمندر کے گہرے پانی میں تحقیق کرنے سے اگر کچھ خطرات پیدا ہوسکتے ہیں یا جو خطرات پہلے ہی پیدا ہو چکے ہیں کیا صرف بھارت کے ایسی تحقیق سے دور رہنے سے وہ خطرات دور ہوسکتے ہیں جو گہرے پانی میں کی جانی ہے۔ جواب ہے نہیں ، اس لئے بھارت کا اس مہم میں شامل ہونا ضروری ہے۔
 ایک ہندوستانی کی حیثیت سے ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دیس چاند پر فتح کے پرچم گاڑ چکا ہے اور اب وہ سمندر کی گہرائی میں ایسے بہت سے راز جاننے کی کوشش شروع کرنے والا ہے جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ قدرت کے اسرار کو جاننے کی کوشش کرنا برا نہیں ہے مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ قدرت کے راز جاننے اور قدرت کے کاموں میں مداخلت کرنے میں فرق ہے۔ اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو قدرت کے قہر سے بچا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جا رہا ہے کہ کافی تباہیاں ترقی کے نام پر کئے جانے والے کاموں کے سبب جھیلی جارہی ہیں ۔
 تباہیوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ نظام قدرت میں مداخلت سے بچنے کے ساتھ زمین پر رہنے کا سلیقہ بھی سیکھا جائے۔ زمین پر رہنے اور جینے کا سلیقہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کے جیتے رہنے کی ضمانت دی جائے۔ زمین کے اوپر درندوں ، گدھوں اور دوسرے جانوروں کی اہمیت تو ہے ہی سمندر یا پانی کی مخلوقات کی بقا بھی ضروری ہے۔ بڑھتی ہوئی گندگی اور تیز تر ہوتے ہوئے ایٹمی اور دوسرے تجربات کے سبب سمندری مخلوقات پہلے ہی فنا ہوتی جا رہی ہیں ۔ ہم سمندریان مشن یا اس قسم کے دوسرے تجربوں کے خلاف نہیں بلکہ دعا کرتے ہیں کہ ہندوستان اس مہم میں بھی دوسرے ملکوں پر سبقت حاصل کرے مگر ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کو یہ پیغام بھی دے کہ نظام قدرت میں مداخلت اور مخلوقات کو نقصان پہنچائے بغیر بھی وہ اپنی مہم جوئی جاری رکھ سکتا ہے۔ ہندوستان یہ پیغام پہلے دے بھی چکا ہے۔ جب وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی کے دور اقتدار میں کامیاب ایٹمی تجربہ ہوا تھا تو وزیراعظم کو پیغام دیا گیا تھا کہ ’’بدھ ہنسا‘‘۔ یہ پیغام وزیراعظم کے نام خفیہ پیغام تو تھا ہی کہ ایٹمی تجربہ کامیاب ہوگیا دنیا کے نام بھی ایک پیغام تھا کہ ہندوستان کا ایٹمی تجربہ دنیا کو نقصان پہنچانے کیلئے نہیں بلکہ اپنے دفاع اور پُر امن مقاصد کیلئے ہے۔
’’سمندریان‘‘ مشن کی کامیابی کی دعا کے ساتھ بھی یہ کوشش اور یاددہانی ضروری ہے کہ سمندر یا سمندری مخلوقات اور سمندر سے اپنی روزی روٹی حاصل کرنے والوں کو ہمارے تجربات یا مہم جوئی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK