Inquilab Logo

قومی راجدھانی دہلی سے متعلق آرڈیننس کھلی زیادتی ہے

Updated: May 29, 2023, 5:02 PM IST | Arqam Noorul Hasan | Mumbai

یہ تنازع گزشتہ ۸؍ سال سے جاری ہے، دہلی میں عام آدمی پارٹی فی الحال ایسی حالت میں ہےکہ اسے کام کرنے کیلئے افسران کی ایک ٹیم تو دے دی گئی ہے لیکن اسے رپورٹ ا پنے سیاسی حریفوں کوکرنا ہے، یہ ایک منتخب حکومت کے ساتھ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟

After the meeting, Kejriwal and Uddhav Thackeray also spoke to the media and announced to take this fight forward.
ملاقات کے بعدکیجریوال اور ادھو ٹھاکرے نے میڈیا سے بھی گفتگو کی اور اس لڑائی کو آگے تک لے جانے کا اعلان کیا

قومی راجدھانی دہلی کی حکومت میںاختیارات کی جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہاںعام آدمی پارٹی کی حکومت بننے اورمستحکم ہونے کے بعد سےجو معاملات شروع ہوئے،ان میں یہ جنگ نمایاں ہوکر سامنے آ تی رہی ہے۔ دہلی کی منتخبہ عوامی  حکومت کے پاس کیا اختیارات رہیں گے  اورکیا نہیںرہیں گے،اس کا فیصلہ وہاںعام طورپرمرکز ی حکومت کے اشارے پر ہوتا رہا ہےکیونکہ دہلی کو اب تک مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے۔اس کی قانونی و آئینی حیثیت نیشنل کیپٹل ٹیرٹری (قومی راجدھانی علاقہ) کی ہےیعنی جس طرح جزائر انڈومان نکوبار کی حیثیت کلی طورپر مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی ہے اسی طرح دہلی بھی مرکز کے زیر انتظام ہی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ یہاں کے عوام کورائے دہی کے ذریعے اپنی حکومت منتخب کرنے کا اختیار ہے۔یہ بھی بتاتے چلیں کہ عام آدمی پارٹی حکومت کے اہداف میںدہلی کومکمل ریاست کا درجہ دلانا بھی شامل ہے۔بہرحال یہ ابھی دور کا معاملہ ہے۔فی الوقت صورتحال دہلی میںمنتخب عوامی حکومت اورلیفٹیننٹ جنرل کے دائرہ اختیارکے درمیان جاری کشمکش کی ہے۔
  اس تعلق سے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے ۱۱؍مئی کو ایک فیصلہ سنایا ہےجس کے ذریعے عدالت نے دہلی میں ایل جی( لیفٹیننٹ جنرل) کے کردار کومحدودکرنےپرمہر ثبت کی  ہے اورعوامی حکومت کو کچھ اختیار ات دئیے  ہیں جن کا تعلق قانون سازی اور سول سروس انتظامیہ سے ہے۔ سپریم کورٹ نے ایل جی کوعوامی نظم (پبلک آرڈر)،پولیس اور زمین سے متعلق معاملات پر اختیار دیا ہے ۔عدالت کا مقصدقومی راجدھانی میںمرکزی حکومت کے مفادات اور عوامی حکومت کے دائرہ اختیارکے درمیان توازن قائم کرنا ہے تاکہ سرکاری امور کی انجام دہی بھی متاثر نہ ہواور عوام کو  ملنے والی سہولیات میں بھی کوئی رکاوٹ نہ آئے۔عدالت نے اپنے حکم کے ذریعے اختیارات تقسیم کئے  ہیں اور یہ بالکل موزوں فیصلہ  ہے لیکن موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہےکہ کسی اپوزیشن کو اس کے مدمقابل کسی اختیارکاملنااس کی آنکھوں میںکھٹکنے لگتا ہے۔اسلئے ۱۹؍ مئی کواس نے صدر جمہوریہ کے ذریعے(گورنمنٹ آف نیشنل کیپٹل ٹیریٹری ترمیمی آرڈیننس ) فرمان جاری کرواکران سروسیز ، خدمات ومعاملات پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے جسے مختصرا ً اس طرح سمجھا جاسکتا ہےدہلی میںسرکاری افسران اور نوکر شاہوں(بیوروکریٹس ) کی تقرری، تبادلے، منظوری ،نگرانی اورتادیبی کارروائی کے سارے اختیارات لیفٹیننٹ جنرل کو دئیے گئے ہیں۔
 اس آرڈیننس کے تحت نیشنل کیپٹل سول سروس اتھاریٹی (این سی سی ایس اے) تشکیل دی گئی ہے جو مذکورہ تمام معاملات کی نگرانی کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ اس کمیٹی کا چیئر پرسن وزیر اعلیٰ ہی ہوگا جبکہ چیف سیکریٹری اورپرنسپل داخلہ سیکریٹری بالترتیب ممبراور ممبر سیکریٹری ہوںگے۔دہلی کے تمام محکموں میں برسرکار سول سروس افسران اورنوکرشاہ اس کمیٹی کےما تحت کام کریں گے بجز پبلک آرڈر،پولیس اوراراضی سےمتعلق محکمہ کے افسران کے۔یاد دلاتے چلیںکہ ان تین زمروںکی خدمات کوسپریم کورٹ پہلے ہی لیفٹیننٹ گورنر کے اختیار میں دے چکا ہے۔اب کمیٹی کے ذریعےدیگرزمروں پرجنہیں عدالت نے دہلی حکومت کے اختیا رمیں دیا ہے، حکومت اپنی بالادستی قائم کرناچاہتی ہےیعنی یہ کہ ان خدمات کے تعلق سےجو بھی معاملہ یا نزاعی صورتحال درپیش  ہوگی، ان کا تصفیہ کرنے کا اختیارکمیٹی کا چیئرمین ہونے کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ کوتوہوگا لیکن کمیٹی کے اراکین بھی ہوںگےجنہیںفیصلے سے اختلاف کا حق حاصل ہوگا اوراختلاف کی صورت میںحتمی فیصلہ لیفٹیننٹ گونر (ایل جی ) کرے گا۔یعنی معاملہ پلٹ کر وہیں آگیا ہےکہ دہلی مرکز کے کنٹرول میں رہے گی نہ کہ منتخب عوامی حکومت کے۔ اس سے قبل مئی ۲۰۱۸ء میں بھی ایک آئینی بینچ ایل جی کےاختیارات کم کرنے کا فیصلہ سنا چکی ہے لیکن عام آدمی پارٹی حکومت اورمرکز کے درمیان یہ تنازع گزشہ ۸؍ سال سے جاری ہےاور عام آدمی پارٹی فی الحال ایسی حالت میں ہےکہ اسے کام کرنے کیلئے افسران کی ایک ٹیم دے دی گئی ہے لیکن اسے رپورٹ ا پنے سیاسی حریفوں کوکرنا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے ایک حد تک یہ طے کردیا تھا کہ دہلی کے سرکاری افسران حتمی طورپر عوامی حکومت کو جوابدہ ہوں گے ۔ 
  اب اس معاملے پرجو سیاست ہورہی ہے اسے دو مختلف پہلو ؤں سےدیکھنے اوردکھانے کی کوشش کی جا رہی  ہے۔ ایک یہ کہ یہ دہلی کی عوامی حکومت کے ساتھ مرکزکی کھلی زیادتی ہےاور وہ بھی صرف اسلئے کہ آئینی طورپرابھی دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے اوراسی کا مرکز فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ، دہلی کی اس حیثیت کو بدلنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہے اور اس کیلئے یقیناً عنقریب بڑے پیمانے پر آواز اٹھائے جانے کا امکان ہے۔حالانکہ مرکز ی حکومت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ قومی راجدھانی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔دوسرا یہ کہ اس سے ایک بار پھر۲۰۲۴ء کے انتخابات سے قبل اپوزیشن کے جامع اتحاد کا قوی امکان پیدا ہوگیا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اس تنازع میں اپنے حق میںراہ ہموار کرنے کیلئےدیگر ریاستوںکے دورہ پر ہیں۔ انہوں نے نتیش کمار اور ممتا بنرجی سے ملاقات کی ہے۔ کیجریوال ادھو سے بھی ملے ہیں۔اروند کیجریوال کی کوشش ہےکہ راجیہ سبھامیںاس آرڈیننس کو منظورہونے سے روکا جائے جو اپوزیشن کے اتحاد سے ہی ممکن ہے اور جسے لوک سبھا انتخابات سے قبل سیمی فائنل مقابلے کے طورپر پیش کیا جارہا ہے۔(باقی صفحہ ۸؍ پر)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK