Inquilab Logo Happiest Places to Work

غوث الاعظمؒ کی شخصیت ہمہ جہت اوصاف کی حامل ہے

Updated: October 27, 2023, 2:02 PM IST | Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai

آپؒ نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جملہ اولیاء کرام بشمول حضور غوث الاعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے پیش نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیاء کاملین کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے؟
حضور غوث الاعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہت اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم غوث پاکؒ کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیران پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں اور ان کے ہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے؟
ہمارے ہاں معمول یہ ہے جب کبھی اِن بزرگان دین کے ایام منائے جاتے ہیں تو اس حوالے سے منعقدہ کانفرنسز اور اجتماعات میں ہمارا موضوع اکثر و بیشتر کرامات ہوتا ہے۔ کرامت سے کسی بھی ولی اللہ کا ایک گوشہ تو معلوم ہوتا ہے مگر یاد رکھ لیں کہ صرف کرامت کا نام ولایت نہیں اور ولایت صرف کرامت تک محدود نہیں۔  ولایت، کرامت کو نہیں کہتے بلکہ ولایت، استقامت کو کہتے ہیں۔ جب کرامت کا بیان ہوتا ہے تو یہ اولیائے کرام کی شان کا ایک گوشہ ہے۔ ان کے اصل مقام کا پتہ استقامت سے چلتا ہے۔ کتاب و سنت کی متابعت اور استقامت ہی سے ولایت کا دروازہ کھلتا اور اس میں عروج و کمال نصیب بنتا ہے۔
 غوث الاعظمؒ، آئمہ ،محدثین اور فقہاء کی نظر میں
حضور غوث الاعظم ؒکے مقام و مرتبہ کا ایک عظیم اظہار ’’علم‘‘ کے باب میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ عِلم ِ شریعت کے باب میں ان سے متعلقہ بہت سے اقوال صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں اور ہم لوگ بیان کرتے رہتے ہیں مگر اس موقع پر میں سیدنا غوث الاعظم ؒ کا مقامِ علم صرف آئمہ محدثین اور فقہاء کی زبان سے بیان کروں گا ۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور غوث الاعظم ؒ نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ آپ ؒ ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور ۹۰؍ سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلباء کو پڑھاتے رہے۔ بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا۔ اس  مدرسہ  سے ہر سال ۳؍ہزار  طلباء جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔  
علامہ ابن تیمیہؒ
علامہ ابن تیمیہؒ کے شیح، امام ابن قدامہ کے شاگرد تھے اور امام ابن قدامہ، حضور غوث الاعظم کے مرید تھے۔ علامہ ابن تیمیہؒ سیدنا غوث الاعظمؒ کے عظیم عقیدت مندوں میں سے تھے۔ علامہ ابن تیمیہؒ کی کتاب الاستقامۃ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں اولیاء و صوفیاء میں سے سب سے زیادہ محبت و عقیدت سے جس شخصیت کا نام علامہ ابن تیمیہؒ نے لیا وہ غوث الاعظمؒ ہیں۔شیح عبدالقادر جیلانیؒ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا نام اس طرح لکھتے ہیں:قطب العارفين ابا محمد بن عبد القادر بن عبد اﷲ الجيلی۔’’قطب العارفین (سارے عارفوں کے اولیاء کے قطب) سیدنا شیح عبد القادر الجیلانی۔‘‘
امام ابن قدامہ المقدسیؒ
امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضور غوث الاعظمؒ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔ امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن (امام عبدالغنی المقدسی) حضور غوث الاعظم کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لئے پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپؒکی عمر ۹۰؍ برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔ امام الذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں:
سیدنا غوث الاعظمؒ کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ میں رہتے تھے۔ سیدنا غوث الاعظم اپنے بیٹے یحییٰ بن عبدالقادر کو بھیجتے اور وہ ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب اور  خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا اور گھر سے درویشوں کیلئے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے۔
امام یافعیؒ
امام یافعی (جن کی کتاب کی امام ابن حجر عسقلانی نے التلخیص الخبیر کے نام سے تلخیص کی) فرماتے ہیں:شرق تا غرب پوری دنیا سے علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے،  سماع کرتے اور دور دراز تک علم کا فیض پہنچتا۔
امام یافعی فرماتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم  کا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں پہنچیں۔ امام یافعی شعر میں اس انداز میں حضور غوث پاک کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ
غوث الوراء، غيث النداء نور الهدی
بدر الدجی شمس الضحی بل الانور
(يافعی، مرأة الجنان، ۳:۳۴۹)
حافظ ابن ِ کثیرؒ
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد، حافظ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ( جلد۱۲، ص۲۵۲؍  ) میں  کہتے ہیں کہ حضور غوث اعظم سے خلقِ خدا نے اتنا کثیر نفع پایا جو ذکر سے باہر ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ کے احوال صالحہ تھے اور مکاشفات و کرامات کثیرہ تھیں۔
امام ذہبیؒ
امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ:’’کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی سے بڑھ کر ہوں۔‘‘
امام العز بن عبدالسلامؒ
شافعی مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام العز بن عبد السلام کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں:
ما نقلت إلينا کرامات أحد بالتواتر إلا شيخ عبد القادر الجيلانی.
’’آج تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں ہوئیں جتنی شیخ عبد القادر الجیلانی کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے‘‘۔
امام یحییٰ بن نجاح الادیبؒ
ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی مجلس میں گیا، ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ غوث الاعظم اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہٰذا اپنے ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں تو سیدنا غوث اعظم ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا:
انا احل و انت تاکد
’’میں گانٹھیں کھولتا ہوں اور تم گانٹھیں باندھتے ہو۔‘‘
(ذهبی، سير اعلام النبلاء،۲۰:۴۴۸)
یعنی میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لئے بیٹھے ہو۔ اندازہ لگائیں یہ آپؒ کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا۔ان چند حوالہ جات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پتہ چلے کہ آئمہ حدیث و فقہ نے غوث الاعظمؒ کے علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK