Inquilab Logo

روہنگیاؤں کی حالت زار اور عام بے حسی

Updated: March 22, 2023, 12:08 AM IST | Mumbai

دُنیا کے لوگ اپنے اپنے معمولات میں گم ہیں، حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہیں، یوکرین اور روس کی جنگ ہنوز جاری ہے اور اس کے تھمنے کے آثار نہیں ہیں

The Rohingyas who fled Myanmar and sought refuge in Bangladesh are not being heard at all. Their problems have been turned away.
میانمار سے راہ فرار اختیار کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیاؤں کی بالکل بھی سنی نہیں جارہی ہے۔ اُن کے مسائل سے منہ موڑ لیا گیا ہے۔

دُنیا کے لوگ اپنے اپنے معمولات میں گم ہیں، حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہیں، یوکرین اور روس کی جنگ ہنوز جاری ہے اور اس کے تھمنے کے آثار نہیں ہیں،  بینکوں کے ڈوب جانے سے امریکی کھاتہ دارپریشان ہیں، افریقی ملکو ںمیں پانی کی شدید قلت ہے، ترکی اور شام کے زلزلہ سے متاثرہ افراد اب بھی معمول کی زندگی پر نہیں لوَٹے ہیں۔ عالمی منظرنامہ پر اور بھی بہت کچھ جاری ہے۔ نئے مسائل نئی تشویش پیدا کرتے ہیں اور پرانے مسائل عوامی حافظہ سے محو ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور شاید یہی ہوتا رہے۔ ایسے میں میانمار سے راہ فرار اختیار کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیاؤں کی بالکل بھی سنی نہیں جارہی ہے۔ اُن کے مسائل سے منہ موڑ لیا گیا ہے۔
 لیکن، دُنیا کی بے توجہی سے روہنگیاؤں کیلئے زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹوم اینڈریوز نے اقوام عالم کو متنبہ کرنے کے مقصد سے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کے راشن میں کٹوتی عالمی برادری کے اجتماعی ضمیر پر دھبہ ہے (Stain on conscience of the international community)۔ ہم نے یہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ ٹوم اینڈریوز کے انتباہ کا کتنے ملکوں نے نوٹس لیا۔ مگر تادم تحریر کوئی ایسی خبر پڑھنے کو نہیں ملی جس سے اُمید بندھتی۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو ناکافی سرمائے کی وجہ سے پناہ گزینوں میں تقسیم ہونے والے راشن میں تخفیف کرنی پڑی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ مغربی ممالک یوکرین کی جنگ جیتنے کے مقصد سے کروڑوں ڈالر خرچ کرسکتے ہیں مگر بے گھر اور بے اماں انسانوں کی پیٹ بھرنے کی سب سے بنیادی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتے۔ راشن کی یہ تخفیف جہاں پختہ عمر کے لوگوں کیلئے مسئلہ بنے گی وہیں چھوٹے بچوں کی نشوونما کو بھی متاثر کرے گی۔ ویسے بھی پناہ گزیں کیمپوں میں حالت یہ ہے کہ دس میں سے چار بچے ناقص تغذیہ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔اینڈریوز نے واضح لفظوں میں اقوام متحدہ کے رُکن ملکوں کو یہ کہتے ہوئے غیرت دلائی کہ آپ کے زبانی جمع سے ان بے یارومددگار لوگوں کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ اینڈریوز کی اس دردمندانہ اپیل میں ہیومن رائٹس کونسل سے وابستہ خصوصی نمائندہ برائے حق غذا پروفیسر مائیکل فخری بھی شریک ہیں۔ ان افسران نے راشن میں کٹوتی کو محض بھوک سے نہیں جوڑا بلکہ دیگر مسائل کی جانب کیخلاف متنبہ کیا کہ عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
 یہ وہ پناہ گزیں ہیں جنہیں ناکردہ گناہی کی سزا بھگتنی پڑرہی ہے۔ اُنہیں بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اُن کے حق میں حالات اب بھی موافق نہیں ہیں۔ میانمار اُنہیں واپس لینا نہیں چاہتا۔ بنگلہ دیش نے نہایت فراخدلی سے اُنہیں اپنی سرزمین پر جگہ دی مگر کب تک؟
  اس ماہ کے اوائل میں، کاکس بازار میں واقع اِن کے خیموں میں لگنے والی آگ بھیانک تھی جس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ ۲؍ ہزار ۸؍ سو خیمے خاکستر ہوگئے جس کا نتیجہ تھا کہ ۱۵؍ ہزار پناہ گزینوں کی مختصر سی پناہ گاہ بھی چھن گئی۔ تفتیش کارو ںکا کہنا ہے کہ یہ آگ لگی نہیں، منظم طور پر لگائی گئی تھی۔ یہ واقعہ بھی عالمی برادری کی تشویش کا باعث بننا چاہئے تھا، تاکہ عالمی سراغرساں اداروں کی ملی جلی کاوشوں سے اُن لوگوں کا پتہ لگایا جاتا جنہوں نے آگ لگائی مگر کسی نے توجہ نہیں دی۔ کیا اس صورتحال سے اقوام عالم کی بے حسی کا اِظہار نہیں ہوتا؟ n

rohingya Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK