وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا یہ بیان ان رپورٹس کے بارے میں ایک سوال پر سامنے آیا ہے جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی حکام نے روہنگیا پناہ گزینوں سمیت لوگوں کو بنگلہ دیش اور میانمار جانے پر مجبور کیا ہے۔
EPAPER
Updated: May 22, 2025, 10:14 PM IST | New Delhi
وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا یہ بیان ان رپورٹس کے بارے میں ایک سوال پر سامنے آیا ہے جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی حکام نے روہنگیا پناہ گزینوں سمیت لوگوں کو بنگلہ دیش اور میانمار جانے پر مجبور کیا ہے۔
وزارت خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ ہندوستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تمام غیر ملکی شہری چاہے وہ بنگلہ دیشی ہوں یا کسی اور ملک سے، قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ وزارت کے ترجمان رندھیر جیسوال کا یہ بیان ان رپورٹس کے بارے میں ایک سوال پر سامنے آیا ہے جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی حکام نے روہنگیا پناہ گزینوں سمیت لوگوں کو بنگلہ دیش اور میانمار جانے پر مجبور کیا ہے۔ جیسوال نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’’ہمارے یہاں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی شہری ہیں جنہیں ملک بدر کیا جانا ضروری ہے۔ ہم نے بنگلہ دیشی فریق سے کہا ہے کہ وہ اپنی قومیت کی تصدیق کرے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے افراد کے ۲؍ ہزار ۳۶۰؍ سے زائد معاملات ہیں جن کو ’’ملک بدر کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: مرکزی حکومت نے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت پر عجیب وغریب منطق پیش کی
وزارت کے ترجمان نے نوٹ کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ پہلے ہی جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں، لیکن ان کی ملک بدری میں تاخیر ہوئی ہے کیونکہ ان کی قومیت کی تصدیق ۲۰۲۰ء سے زیر التوا ہے۔ جیسوال نے کہا کہ ’’ہم بنگلہ دیشی فریق پر زور دیں گے کہ وہ تصدیق کے عمل کو تیز کرے۔تاکہ جن لوگوں کو ملک بدر کرنا ضروری ہے انہیں بنگلہ دیش واپس بھیجا جا سکے۔‘‘ واضح رہے کہ ۸؍ مئی کو بنگلہ دیش کی سرحدی فورس نے الزام لگایا کہ اس نے کم از کم ۱۲۳؍ افراد کو حراست میں بھی لیا ہے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان نے بغیر دستاویزات کے انہیں ان کے ملک میں ’’دھکیل‘‘ دیا تھا۔ حراست میں لئے گئے افراد میں روہنگیا اور بنگلہ بولنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ایک سینئر ہندوستانی پولیس افسر نے اسکرول کو تصدیق کی تھی کہ بنگلہ دیش نے کچھ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ لیکن افسر نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ کتنے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کسی کو محض اس کے نظریے کی بنیاد پرجیل میں نہیں ڈالا جاسکتا: سپریم کورٹ
۱۰؍ مئی کو آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواشرما نے تصدیق کی کہ ریاستی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ دیگر ’’غیر قانونی دراندازوں‘‘ کے خلاف قانونی مقدمات درج کرنے کے بجائے بنگلہ دیش میں واپس دھکیل رہی ہے۔ بنگلہ دیش کے ستکھیرا قصبے میں پولیس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، اسکرول نے ۱۵؍ مئی کو رپورٹ کیا کہ ۷۸؍ افراد کے گروپ میں تین ہندوستانی بھی شامل تھے جنہیں مبینہ طور پر ۸؍ مئی کو بذریعہ بحری راستہ بنگلہ دیش میں ’’دھکیل‘‘ دیا گیا تھا۔ گجرات کی پولیس نے، جہاں سے ان افراد کو مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا تھا، نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ گروپ کو پانی میں دھکیل دیا گیا تھا۔ ۱۶؍ مئی کو ڈھاکہ نے کہا کہ اس نے نئی دہلی کے ساتھ ان رپورٹوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان نے لوگوں کو بنگلہ دیش میں ’’دھکیل‘‘ دیا ہے۔ نئی دہلی میں بنگلہ دیش ہائی کمیشن کے پریس منسٹر فیصل محمود نے اسکرول کو بتایا کہ ’’جو لوگ بغیر کسی قانونی طریقہ کار یا رسمی چینلز کی پیروی کئے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ان کی شناخت غیر تصدیق شدہ ہے۔‘‘