Updated: May 16, 2025, 10:03 PM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک رٹ پٹیشن پر سوال اٹھایا اور اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ہندوستانی حکومت نے۴۳؍ روہنگیا، جن میں بچے، خواتین، بزرگ، اور کینسر جیسے سنگین صحت کے مسائل والے افراد شامل ہیں، کو زبردستی میانمار واپس بھیج دیا ۔
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این
لائیو لاء نے رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک رٹ پٹیشن پر سوال اٹھایا اور اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ہندوستانی حکومت نے۴۳؍ روہنگیا، جن میں بچے، خواتین، بزرگ، اور کینسر جیسے سنگین صحت کے مسائل والے افراد شامل ہیں، کو زبردستی میانمار واپس بھیج دیا اور انہیں بین الاقوامی پانی میں پھینک دیا۔ جسٹس سوریہ کانت اور این کوٹیسور سنگھ کی بنچ نے ہندوستان سے روہنگیا کی مستقبل کی جلاوطنی روکنے کے لیے عبوری احکامات جاری کرنے سے انکار کر دیا، اور کہا کہ عدالت عظمیٰ نے۸؍ مئی کو ایک اور پٹیشن میں اسی طرح کی راحت دینے سے انکار کیا تھا۔ بنچ نے کہا، مبہم، غیر واضح اور عمومی بیانات کے حق میں کوئی مواد موجود نہیں ہے۔ جب تک الزامات کو ابتدائی مواد کے ساتھ ثابت نہ کیا جائے، ہمارے لیے بڑی بنچ کے فیصلے پر نظرثانی کرنا مشکل ہے۔‘‘ جسٹس کانت نے پٹیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئےدرخواست گزار سے تیکھے سولات کئے۔ اور اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے ثبوت کا مطالبہ کیا۔ اس ہفتے کے شروع میں، مکتوب نے رپورٹ کیا کہ اس واقعے کے ثبوت ملنے کے بعد، ہندوستان کی طرف سے میانمار کے ساحل کے قریب سمندر میں پھینکے گئے۴۰؍ روہنگیا پناہ گزین محفوظ ہیں اور اب نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے تحفظ میں ہیں، جو کے فوجی بغاوت کے بعد بننے والا جمہوری گروپوں کا اتحاد ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اترپردیش اور مدھیہ پردیش اسمبلی میں ۲۰۲۴ء میں محض ۱۶؍ دن اجلاس: رپورٹ
سینئر ایڈووکیٹ کولن گونسالوس نے کہا کہ لوگوں کو انڈمان لے جا کر سمندر میں پھینک دیا گیا، اور اب وہ ’’جنگ زدہ خطہ میں ہیں۔اس پر جج حضرات نے اس کے ثبوت مانگے۔ لائیو لاء کے مطابق، گونسالوس نے کہا کہ ہندوستان میں موجود درخواست گزاروں کو اس بارے میں ٹیلی فون کال موصول ہوئیں۔ جب سینئر وکیل بنچ کو پٹیشن کے بارے میں بتا رہے تھے، جسٹس کانت نے کہا، جب ملک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، آپ اس طرح کے خیالی خیالات لے کر آتے ہیں۔‘‘
حتیٰ کہ عدالت نے فون کال کی صداقت پر بھی سوال اٹھائے۔ گونسالوس نے اس کے جواب میں بتایا کہ میانمار کے ساحلوں سے ایک ٹیپ ریکارڈنگ ہے ، حکومت اس کی تصدیق کر سکتی ہے۔ساتھ ہی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور اس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔اس پر جسٹس کانت نے وہ رپورٹ پیش کرنے کو کہا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جو لوگ باہر بیٹھے ہیں ہندوستان کی خود مختاری کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ جب سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت اس پٹیشن کو روہنگیا کے مسائل پر زیر التوا پٹیشن کے ساتھ جوڑ دے گی، گونسالوس نے روہنگیا کی جلاوطنی روکنے کیلئے فوری عبوری حکم مانگا۔ جسٹس کانت نے کہا کہ یہ ’’سنگین تنازع‘‘ ہے کہ آیا روہنگیا پناہ گزین ہیں یا نہیں، جبکہ گونسالوس نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ روہنگیا کو میانمار میں نسل کشی کے خطرات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: حکومت مظفرنگر تھپڑ معاملےکے متاثرہ بچے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے: سپریم کورٹ
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے، جسٹس کانت کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے کہا تھا کہ’’ اگر روہنگیا کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے، تو انہیں قانون کے مطابق جلاوطن کرنا ہوگا۔ اگر انہیں یہاں رہنے کا حق ہے، تو اسے تسلیم کیا جانا چاہیے، اور اگر انہیں یہاں رہنے کا حق نہیں ہے، تو وہ طریقہ کار پر عمل کریں گے اور قانون کے مطابق جلاوطن کریں گے۔‘‘