یو این کی انسانی حقوق کونسل نے عرفات کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ روہنگیا کارکن کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے یو این ایچ سی آر کے ساتھ تعاون کرے۔ اس کے باوجود، ہندوستان نے عرفات کو بغیر قانونی عمل کے ملک بدر کر دیا جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
محمد عرفات۔ تصویر: آئی این این
ہندوستان نے ۶ مئی ۲۰۲۵ء کو روہنگیا انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکن محمد عرفات کو چار سال سے زائد عرصہ تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد بنگلہ دیش کے حوالے کر دیا۔ عرفات کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور واپس نہ آنے کی دھمکی دے کر آسام کے مٹیا حراستی مرکز، جسے اب `ٹرانزٹ کیمپ` کا نام دیا گیا ہے، سے دیگر ۲ بنگلہ دیشی تارکین وطن کے ساتھ ملک بدر کیا گیا۔ بنگلہ دیش پہنچنے کے بعد، عرفات نے ۱۰ دن جیل میں گزارے جبکہ حکام ان کی قانونی حیثیت پر بحث کر رہے تھے۔ بنگلہ دیش میں ایک خفیہ مقام سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ صدمے اور خودکشی کے خیالات سے مغلوب ہیں۔ انہوں نے کہا، "میں مسلسل ستائے جانے سے تھک گیا ہوں۔"
اقوام متحدہ (یو این) کی انسانی حقوق کونسل نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ تعاون کرے تاکہ عرفات کے تحفظ اور ممکنہ طور پر دوبارہ آباد کاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے باوجود، ہندوستان نے عرفات کو بغیر قانونی عمل کے ملک بدر کر دیا جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ مئی سے اب تک، ہندوستان نے تقریباً ۶۰۰ غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک بدر کیا ہے۔ ان میں یو این ایچ سی آر کارڈز رکھنے والے ۴۰ روہنگیا شامل ہیں جنہیں مبینہ طور پر انڈمان سمندر میں دھکیل دیا گیا۔ ہندوستانی حکومت، فارینرز ایکٹ ۱۹۴۶ء کے تحت روہنگیا باشندوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہے جس کی وجہ سے رجسٹرڈ مہاجرین سمیت حراست اور ملک بدری ہوتی ہے۔ ہندوستان نے ۱۹۵۱ء کے رفیوجی کنونشن پر دستخط نہیں کئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ہندوستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا: جیسوال
عرفات، اب بنگلہ دیش میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ دوبارہ مل گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکے ہیں۔ عرفات نے کہا، "وہ مجھے تباہ کرنا چاہتے تھے۔" ان کے خاندان کو دباؤ، مالی مشکلات اور ان کے بچوں کی تعلیم تک رسائی نہ ہونے جیسے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے والد، جو ایک کمیونٹی لیڈر تھے، کو مبینہ طور پر میانمار میں اس وقت قتل کیا گیا جب عرفات شیر خوار تھے۔ ۲۰۱۲ء میں، وہ میانمار کے تشدد سے بچ کر ہندوستان پہنچے جہاں انہوں نے یو این ایچ سی آر سے منسلک ایک این جی او کے ساتھ کام کیا۔ بنگلہ دیش میں دھمکیوں کے بعد، وہ حفاظت کی تلاش میں ہندوستان واپس آئے لیکن دسمبر ۲۰۲۰ء میں آسام میں حراست میں لئے گئے روہنگیا باشندوں کی مدد کرنے پر گرفتار کر لئے گئے۔
یہ بھی پڑھئے: ہندوستان پر مئی میں ۲۸۰؍ سے زائد افراد کو زبردستی بنگلہ دیش میں دھکیلنے کا الزام، ۳؍ ہندوستانی شامل
یو این ایچ سی آر کارڈ رکھنے کے باوجود، عرفات کو حراست میں لے کر مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ۵۰۰ دن سے زائد عرصہ تک جیل میں رکھا گیا۔ اگرچہ انہیں ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی لیکن سزا پوری کرنے کے بعد بھی انہیں حراست میں رکھا گیا۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کی حراست اس وقت تک جاری رہے گی جب تک میانمار ان کی قومیت کی تصدیق نہیں کرتا، جو بے وطن روہنگیا کیلئے ایک غیر حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔ ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے ان کی حراست کو غیر قانونی قرار دیا اور ہندوستان سے انہیں معاوضہ اور تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انسانی حقوق کے گروپ فورٹیفائی رائٹس نے ہندوستان کے اقدامات کی مذمت کی اور انہیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔ فورٹیفائی رائٹس کے ڈائریکٹر جان کوئنلی نے زور دیا کہ عرفات، میانمار اور بنگلہ دیش، دونوں سے دھمکیوں کی وجہ سے بھاگے تھے اور انہیں ملک بدر نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا، "ہندوستان کو مہاجرین کو خطرے میں واپس بھیجنا بند کرنا چاہئے۔"