Inquilab Logo Happiest Places to Work

انکاؤنٹر کی سیاست، حکومت کا طرز عمل اور سماج کی خاموشی

Updated: September 24, 2023, 1:06 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

یہ ضروری نہیں ہے کہ انکاؤنٹر کیلئے افسپا کا سہارا یا تحفظ حاصل ہو، اہل اقتدار اس کے بغیر بھی یہ معرکہ سر کرسکتے ہیں۔

Police and Security Forces. Photo: INN
پولیس اور سیکوریٹی فورسیز۔تصویر:آئی این این

ہمارے ملک میں  یہ افسوسناک ہے کہ حراستی اموات (ایکسٹرا جوڈیشیل کلنگ) کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اسے انکاؤنٹر کا نام‌ دیا جا سکتا ہے۔ اس کا معنی ہے کسی ملزم کا حراست کے دوران ہلاک کر دیا جانا۔ ہرچند کہ تمام حراستی اموات اس زمرے میں  نہیں  آتیں  مگر اکثر ایسی ہیں  جو اسی زمرے میں  آتی ہیں ۔ یہ تب بھی ہوتا ہے جب کوئی ملزم جان کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ تب بھی ہوتا ہے جب ملزم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے وقت ویڈیو گرافی ہوتی ہے تاکہ اگر ملزم کو قتل کیا گیا تو اس کا ثبوت موجود رہے۔ حراستی ہلاکت کے پیچھے یہ تھیوری ہے یعنی اس کے ذریعہ شاید یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نظام انصاف کمزور اور شکستہ ہے جبکہ سزا دینا لازمی ہے جس کیلئے انتظار نہیں  کیا جاسکتا۔ یہ بھی بتانا مقصود ہوسکتا ہے کہ دنیا میں  اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ، برے بھی، اگر برے لوگ شرانگیزی یا شرارت کریں  تو عدالت سے سزا دلوانے کی ضرورت نہیں ، انہیں  گولیوں  سے بھون کر سزا کا انتظام عدالت کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔
 ۲۷؍ اگست ۲۰۱۳ءکو لوک سبھا کے رکن گرو داس گپتا نے وزارت داخلہ سے چند سوالات پوچھے جن میں  یہ سوال بھی شامل تھا کہ کیا مرکزی حکومت، سپریم کورٹ کی ایماء پر تشکیل دیئے گئے جسٹس این سنتوش ہیگڈے کی سربراہی والے کمیشن کے مشاہدات سے واقف ہے کہ منی پور میں  قتل کی ۷؍ میں  سے چھ وارداتیں  جھوٹی خبروں  کا نتیجہ تھیں ؟ اس میں  یہ سوال بھی تھا کہ کیا قومی حقوق انسانی کمیشن نے منی پور کے انکاؤنٹروں  کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے؟ان‌ سوالوں  کے جواب میں  حکومت نے بتایا کہ اسے ہیگڈے کمیشن کے مشاہدات کا علم‌ ہے لیکن قومی حقوق انسانی کمیشن نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کا مطالبہ نہیں  کیا اس لئے حکومت نے اس سلسلے میں  کوئی پیش رفت نہیں  کی۔
 اس پس منظر میں  یہ جاننا‌ ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ کون سا کمیشن ہے اور اس کے مشاہدات کیا ہیں ۔
 ۲۴؍نومبر ۲۰۱۲ء کو سپریم کورٹ نے سابق جسٹس ہیگڈے، سابق چیف الیکشن کمشنر جے ایم لنگڈوہ اور سابق ڈی جی پی (کرناٹک) اجے کمار سنگھ پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ ۱۹۷۹ء سے۲۰۱۲ء تک کی مدت میں  منی پور میں  انکاؤنٹر کے سبب ہلاک ہونے والے ۱۵۲۸؍لوگوں  کے قتل کی جانچ کرے۔ قتل کی ان وارداتوں  کیلئے پولیس اور سیکورٹی فورسیز کو ذمہ دار مانا جاتا ہے جنہیں  مسلح افواج کے خصوصی اختیارات (افسپا) حاصل تھے۔ مگر شمال مشرقی خطہ اور کشمیر ہی وہ علاقے نہیں  ہیں  جہاں  انکاؤنٹر ہوئے یا ہوتے رہے ہیں  اور یہ ضروری نہیں  ہے کہ انکاؤنٹر کیلئے افسپا کا سہارا یا تحفظ حاصل ہو، اہل اقتدار اس کے بغیر بھی یہ معرکہ سر کرسکتے ہیں ۔
 اس‌دوران منی پور ایک بار پھر خبروں  میں  تھا مگر اس بار وجہ انکاؤنٹر نہیں  تھی۔ حراستی ہلاکتوں  کی طرح، جن کی ہمیں  خبر ہوتی ہے نہ ہی ہم ردعمل ظاہر کرتے ہیں ، ملک اس وقت چونکا جب ایک دہلا دینے والا ویڈیو منظر عام پر آیا۔ وزیر اعظم‌ بھی تب ہی لب کشائی پر مجبور ہوئے۔
 سوال یہ ہے کہ لوک سبھا میں  اس اعتراف کے بعد کہ ایسے واقعات ہوئے ہیں ، کیا ہوا، انکاؤنٹر تو جاری رہے اور انکاؤنٹر تب بھی ہوا جب ملزم اپنی جان کے خطرے کی شکایت لے کر سپریم کورٹ پہنچا اور تب بھی ہوا جب ملزم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے پورے عمل کی ویڈیو گرافی جاری تھی؟
 ایسا لگتا ہے کہ بے لگام اور بے خوف ہونے کی اس صورتحال کے اپنے اسباب ہیں  جن میں  سب سے اہم یہ ہے کہ سماج اس کی طرف زیادہ دھیان نہیں  دیتا۔ یہی وجہ ہے ایسا کہنے کا کوئی ٹھوس ثبوت ہمارے پاس نہیں  ہے مگر یہ قرین قیاس اس لئے ہے کہ سماج کا ’’اچھے‘‘ اور’’برے‘‘ لوگوں  کے بارے میں  اپنا نقطہ نظر ہے۔ یہ چیز میڈیا میں  بھی دیکھنے کو ملتی ہے جہاں  عدالتی عمل سے گزارے بغیر من‌ مانے طریقے سے کسی کو سزا دے دینا سوال یا اعتراض کرنے کی وجہ نہیں  بنتا۔ چونکہ بجز سول سوسائٹی سماج کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں  کیا جاتا اس لئے حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں  ہوتا اور وہ اپنی روش نہیں  بدلتی۔ رہا سوال عدلیہ کا تو بلاشبہ اس نے چند معاملات میں  دلچسپی لی ہے مگر حکومت کو کٹہرے میں  نہیں  کھڑا کیا ہے۔
 اس پس منظر میں  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں  حراستی ہلاکت عام طرز عمل بنتا جا رہا ہے لیکن اس ہفتے محض اس لئے کہ ہندوستان پر کسی دوسرے ملک میں  قتل کا الزام عائد ہوا ہے، یہ معاملہ عالمی سطح پر گونج رہا ہے۔ اس جارحانہ الزام کیلئے کوئی ثبوت نہیں  پیش کیا گیا ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ خدا کرے یہ الزام غلط ہی ہو مگر کیا اندرون‌ وطن‌ جو الزام لگتے رہے کیا وہ بھی غلط ہی ہیں ؟ اندرون ملک حالت یہ ہے کہ حراستی ہلاکت عام ہوتی جا رہی ہے جس کے تحت سزا دینے کا قانونی طریقہ پس پشت رہ گیا اور غیر قانونی طریقہ رائج ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جتنے ملزمین کو قانونی طریقہ سے سزا ملتی ہے اس سے زیادہ کو غیر قانونی طریقہ سے سزا مل رہی ہے۔ گزشتہ سال’’دی ہندو‘‘ کے فرنٹ لائن میگزین نے  اپنے ایک شمارہ میں  یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان انکاؤنٹر میں  ہلاکت  کے ۸۰۰؍ واقعات پیش آئے ہیں  جبکہ قانونی طور پر سزائے موت پانے والوں  کی تعداد صرف ۵ ؍ (پانچ) تھی۔ 
 کوئی بیرونی دباؤ آنے کے بعد ہی ہم کچھ کریں  گے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ بہتر ہے کہ ہم خود سنبھلیں کیونکہ اطلاع ہے کہ منی پور کی ہلاکتوں  کی ایک رپورٹ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ کرسٹوف ہینس کو پیش کی جاچکی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK