جس طرح کلید ِ ایمان سے سیکڑوں سال پہلے معاشرہ مبدل بہ اصلاح ہوگیا تھا اسی طرح دورِ جدید کے تمام مشکل مسائل ِ حیات کو بھی ایمان کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے
EPAPER
Updated: July 28, 2023, 10:38 AM IST | Yusuf al-Qaradawi | Mumbai
جس طرح کلید ِ ایمان سے سیکڑوں سال پہلے معاشرہ مبدل بہ اصلاح ہوگیا تھا اسی طرح دورِ جدید کے تمام مشکل مسائل ِ حیات کو بھی ایمان کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے
قوموں اور جماعتوں کی اصلاح بغیر کسی اصول اور ضابطے کے محض اتفاقات کے تھپیڑوں سے نہیں ہوجایا کرتی۔ جو قومیں گرنے کے بعد سنبھلنے اور اضمحلال کے بعد اپنے اندر قوت و توانائی پیدا کرنے کی آرزومند ہوتی ہیں وہ اپنے سامنے تربیت و اصلاح کا واضح پروگرام اور عزم رکھتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر وہ رفعت اور سربلندی کا کوئی مقام حاصل نہیں کرسکتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں اس اصول کی بڑے صاف الفاظ میں یوں نشاندہی کی گئی ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۔‘‘ (الرعد:۱۱)
مگر اپنی حالت کو بدلنے والی بات بہت مشکل ہے۔ دریاؤں کا رخ بدلنا آسان ہے، زمین کا سینہ شق کرنا اور پہاڑوں کے جگر چھید ڈالنا ممکن ہے مگر قلوب و نفوس کے اندر تبدیلی لانا بہت ہی مشکل ہے۔
اس ناممکن کو ممکن بنانے والی قوت صرف ایک ہے اور وہ ایمان کی قوت ہے۔ علمائے نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کی تربیت و اصلاح کا ایک معین وقت ہوتا ہے یعنی سن الطفولۃ۔ اگر یہ وقت گزر جائے تو پھر تکوین ِ عادات اور تہذیب و اخلاق کی کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ اس امر کو بھی علمائے نفسیات بہت اہمیت دیتے ہیں کہ آدمی جس ماحول میں پیدا ہوتا، بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے وہ بھی اِس کے بناؤ بگاڑ کا بہت حد تک ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ہم جس قوت ِ ایمانی کا ذکر کررہے ہیں اِس کی معجزنمائی و کارفرمائی ہر آن مسلّم ہے۔ چاہے آدمی عمر کے کسی مرحلہ میں داخل ہو اور چاہے اس کے حالات اس کی تبدیلی کی راہ میں سنگ گراں بن کر کھڑے ہوں، ایمان کی ایک لہر ہی اس کے دل و دماغ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔
دربار فرعون سے وابستہ جادگروں کی قلبی ماہیت کو دیکھ لیجئے جس کی تفصیل قرآن مجید میں اس طرح پیش کی گئی ہے:
’’فرعون اپنے گرد و پیش کے سرداروں سے بولا: یہ شخص یقیناً ایک ماہر جادوگر ہے اور چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو ملک سے نکال دے اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو؟انہوں نے کہا : اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجئے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے کہ ہر ماہر جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں چنانچہ ایک روز، مقرر وقت پر جادوگر اکٹھا کر لئے گئے اور لوگوں سے کہا گیاکہ تم اجتماع میں چلو گے،شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے۔ جب جادوگر میدان میں آ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا: ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے؟ اس نے کہا: ہاں، اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے۔موسیٰؑ نے کہا: پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے۔ انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے: فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔ پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ مان گئے ہم رب العالمین کو اور موسیٰؑ اور ہارونؑ کے رب کو۔ فرعون نے کہا : تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ انہوں نے جواب دیا: کچھ پروا نہیں، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائینگے اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف فرما دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔‘‘ (الشعراء: ۳۴؍تا۵۱)
غور کیجئے، اِن کی شخصیات کیسے بدل کر رہ گئیں، کتنا بڑا اصلاحی انقلاب آناً فاناً اِن کے اندر برپا ہوگیا۔ کہاں ان کی سوچ کا یہ انداز کہ ’’ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے‘‘ اور کہاں یہ بلندی ٔ فکر کہ ’’ہم تجھے کبھی ترجیح نہیں دے سکتے اُن روشن دلائل پر جو ہمارے پاس آچکے ‘‘ اور پہلی نیاز مندی کے مقابلے میں ذرا بعد کی جرأت ِ ایمانی کے تیور دیکھئے: ’’تو ہمارے خلاف جو بھی فیصلہ کرنا چاہے، کرلے۔‘‘
آج مغربی تاریخ داں حیران ہیں کہ باشندگانِ عرب جو بکریاں چَرایا کرتے تھے، قوموں اور ملکوں کے حکمراں کیونکر بن گئے، بادیہ نشیں تمدن و حضارۃ کے رموز کیسے پا گئے اور انہیں فتح و نصرت کا کون سا گُر ہاتھ آگیا تھا کہ قیصر و کسریٰ کی باجبروت حکومتوں کے تختے الٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اور وہ راز بھی زیادہ دیر تک راز نہیں رہا بلکہ عیاں ہوچکا ہے۔ عربوں کی کایا پلٹ دینے والی چیز اکسیر ِ ایمان تھی جس کے ذریعے محمد ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کی زندگیوں میں محیرالعقول انقلاب برپا کیا۔ اِسی اکسیر کی بدولت ان کے حالات میں تغیر رونما ہوا ، ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا پورا ڈھانچہ تبدیل ہوا، بتوں کی پرستش کرنے والے خدا پرست بن گئے اور جاہلیت کی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے والوں کے سینے نورِ ایمان سے منور ہوگئے۔
اقفالِ حیات کیلئے واحد کلید
حیات ِ انسانی کا عظیم الشان قصر ہر طرف سے مقفل تھا اور اس کے در وَا ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ انسانی عقل مقفل تھی جسے حکماء و فلاسفر کھولنے سے عاجز تھے۔ انسان کا ضمیر مقفل تھا اور واعظین و مرشدین اس کا تالا توڑنے میں ناکام ہوچکے تھے۔ دل و دماغ مقفل تھے جنہیں حوادث ِ زمانہ کے تھپیڑے تک کھول نہ سکے تھے۔ مدرسہ مقفل تھا جسے کھولنے پر اساتذہ و علماء قادر نہ تھے۔
خاندانی نظام مقفل تھا اور اس کے آگے مصلحین و مفکرین کی کوئی پیش نہ چلی تھی۔ قصر حکومت مقفل تھا جسے مظلوم عوام، محنت کش کسان اور غریب مزدور اپنی متحدہ کوشش سے کھول نہ سکتے تھے۔ دولت مندوں کے خزانے مقفل تھے اور غریبوں کی بھوک ان کے قفل توڑ نہ سکتی تھی۔ عظیم مصلحین نے بارہا یہ کوشش کی کہ ان تالوں کو توڑ دیا جائے تاکہ انسانیت کو زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ہمکنار کیا جاسکے مگر بارہا انہوں نے منہ کی کھائی، اُنہیں نیچا دیکھنا پڑا۔
حیات ِ انسانی کی اِس مشکل کو بڑے بڑے دارالحکومتوں میں حل نہ کیا جاسکا، عظیم الشان دانش گاہیں، یونیورسٹیاں اور درسگاہیں اس سے عاجز آگئیں تو اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک چھوٹے سے غار میں فروکش انسانیت کے ایک عظیم محسنؐ کے ہاتھ پر اس مشکل کو آسان کردیا گیا اور تمام اقفالِ حیات (زندگی کے ہر قفل) کی کلید ان کی خدمت میں پیش کردی گئی، یعنی ایمان باللہ والرسول والیوم الآخر کی شاہ کلید جس نے ایک ایک قفلِ حیات کو کھول دیا۔
اس کلید نے عقل انسانی کا قفل کھول دیا اور وہ انفس و آفاق میں اللہ کی بے شمار نشانیاں دیکھنے کے قابل ہوگئی اور شرک کی برائی کو محسوس کرنے لگی۔ اِس نے خوابیدہ انسانی ضمیر کا قفل کھول دیا اور وہ بیدار ہوگیا اور شعور حقیقت سے بہرہ ور ہوکر خوب و ناخوب میں امتیاز کرنے لگا۔ اس نے ان دلوں کے قفل کھول دیئے جو کسی نہ کسی چیز سے عبرت پکڑتے تھے نہ زجر و توبیخ کا کوئی اثر اِن پر ہوتا تھا اور نہ نرمی و رقت ان میں پیدا ہوتی تھی، مگر ایمان باللہ کی کلید کے استعمال سے ان کے اندر خشوع و خضوع پیدا ہوا اور وہ حوادث ِ روزگار سے عبرت پکڑنے لگے۔ کسی مظلوم کو دیکھتے تو اُن کے دل کے اندر ارتعاش پیدا ہوجاتا اور ضعیف و ناتواں پر نظر پڑتی تو جذبات رحم و شفقت سے مملو ہوجاتے۔ اِس سے پہلے حیات ِ انسانی کا دامن اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور دیگر مواہب و قویٰ سے معمور تو تھا مگر یہ تمام استعدادیں مقفل تھیں۔ ایمان باللہ کی کلید نے یہ اعجاز دکھایا کہ انسان کی جملہ مخفی استعدادیں اجاگر کردیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑبکریوں اور اونٹوں کو چَرانے والے اقوام و ملل کے پاسبان بن گئے۔ نیابت ِ الٰہی سے ہمکنار ہوکر عالم پر حکمرانی کرنے لگے ۔ اس کلید نے درسگاہوں اور دانش کدوں کے قفل کھول دیئے اور دنیا کو علم کے شرف سے آگاہی نصیب ہوئی اور عالم و متعلم اور مربی و معلم کے فضل و تفوق پر رشک کرنے لگی۔ گھر گھر تدریس و تعلیم کی مسند بچھ گئی اور ہر بوڑھے اور نوجوان کے لئے زیور ِ علم سے آراستہ ہونا ضروری ٹھہرا۔
اسی کلید نے عدل و انصاف کے مقفل ایوان تک اہل علم کو رسائی بخشی چنانچہ حکام و قضاۃ عدل و انصاف اور پوری احساس ِ ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے لگے اور مظلوموں اور ستم کشوں کے دن پھر گئے۔ اس کلید کے ہاتھ لگنے سے پہلے خاندانی نظام تہ و بالا تھا۔ بیٹا باپ کے حقوق پر دست درازی کررہا تھا اور بھائی بھائیوں کو لوٹنے کے درپے تھا۔ مزید برآں اس خاندانی نظام کا یہ فساد معاشرہ تک متعدی ہوچکا تھا۔ ان حالات میں ایمان باللہ کی کلید نے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق یاد دلائے اور ان کا تحفظ کرنا سکھایا، باہمی رحمت و مؤدت پر تعلقات استوار کئے، خدا کا خوف اور آخرت کی فکر دلوں پر مسلط کی اور اس حقیقت کا گہرا شعور بخشا کہ آدمیت، انسانیت کے احترام اور انسانیت کی خدمت کا نام ہے۔ معاشرتی زندگی کی چولیں ڈھیلی ہوچکی تھیں، انہیں پھر سے کَس دیا اور معاشرہ میں عدل و اخوت کی روح دوڑا دی، خیرخواہی و ہمدردی کے جذبات پیدا کردیئے، قوم کا سردار قوم کا خادم بن گیا اور امراء و اغنیاء نے اپنی دولت کا رخ غرباء و مساکین اور محروم لوگوں کی طرف پھیر دیا۔
اس پوری گفتگو سے آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ انسانی زندگی میں ایمان کا کتنا بڑا مقام ہے۔ افراد ِ معاشرہ کی اصلاح کیلئے جتنا مؤثر کردار ایمان ادا کرتا ہے اور کوئی چیز نہیں کرتی لہٰذا جس طرح کلید ِ ایمان سے سیکڑوں سال پہلے معاشرہ اصلاح سے ہمکنار ہوا تھا اسی طرح دورِ جدید کے تمام مشکل مسائل ِ حیات کو بھی ایمان کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے۔