Inquilab Logo

جمہوری ملک میں حکومت سازی کا عمل غیر جمہوری

Updated: March 13, 2023, 4:02 PM IST | Prem Kumar and Satyadev Chaudhary | Mumbai

وطن عزیز میں رکن پارلیمان منتخب ہونے کیلئے’میجک فیگر‘ ضروری نہیں ہے، لیکن حکومت سازی کیلئے’میجک فیگر‘ کی شرط لازمی کردی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہےکہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی خواہ کوئی بھی ہو، لیکن حکومت وہی پارٹی بناسکتی ہے جو جوڑ توڑ کرکے’میجک فیگر‘ حاصل کرلے

Prime Minister Narendra Modi with newly elected Meghalaya Chief Minister Conrad Sangma and Governor Phagu Chauhan
میگھالیہ کے نومنتخب وزیراعلیٰ کونارڈ سنگما اور گورنر پھاگو چوہان کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی


آپ یہ سن کر حیران ہوں گے، اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں، حکومتیں جمہوری طریقے سے بنتی ہی نہیں ہیں۔ رکن پارلیمان منتخب ہونے کیلئے’میجک فیگر‘ ضروری نہیں  ہے، لیکن حکومت سازی کیلئے’میجک فیگر‘ کی شرط لازمی کردی گئی ہے۔ سب سے زیادہ  ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی خواہ کوئی بھی ہو، حکومت وہی پارٹی بناسکتی ہے جو جوڑ توڑ کرکے’میجک فیگر‘ حاصل کر لے۔یہ سب اسلئے ہے کیونکہ ہندوستانی آئین میں یہ واضح ہی نہیں ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کس طرح ہوگی؟آپ کہہ سکتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ آئین میں تمام چیزیں واضح ہوں.... لیکن اگر حکومت سازی کا طریقہ ہی غیر جمہوری ہو تو پھر کوئی ملک جمہوریت کا نمونہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ حکومت سازی کیلئے غیر جمہوری طریقے اسلئے مستعمل ہوئے ہیں کیونکہ جمہوری حکومت بنانے کے طریقوں پرہمارا آئین خاموش ہے۔
 آئین کے آرٹیکل۷۵؍ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کی تقرری صدر  جمہوریہ کریں گے اور دیگر وزراء کی تقرری بھی وزیراعظم کے مشورے سے  صدر جمہوریہ ہی کریں گے۔ اس میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ وزراء اپنے عہدے پر صرف صدر کی خوشی/ مرضی سے ہی رہ سکیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ وزراء کی کونسل کو واضح طور پر ایوان کے تئیں جواب دہ قرار دیا گیا ہے،  صدر جمہوریہ کے تئیں نہیں.... لیکن، جب تک صدر انہیں عہدے اور رازداری کا حلف نہیں دلا دیتے، تب تک کوئی وزیر اپنی وزارت کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا۔
 ہندوستان کی پارلیمانی جمہوریت میں’وزیر اعظم کی تقرری‘ کا مطلب ’حکومت کی تقرری‘ ہے۔ وزیر اعظم کے استعفیٰ دیتے ہی پوری وزراء کونسل کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ’وزیراعظم کی تقرری‘ پر غور کریں۔ صدر آئینی طریقے سے وزیراعظم کی تقرری کرتے ہیں لیکن کیا واقعی اس طریقہ کار کو جمہوری کہا جاسکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ’تقرری‘ ہی جمہوری نہیں ہے۔یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے والے یعنی صدر کے’ماتحت‘ اور `ان کے ’رحم و کرم پر منحصر‘ کردیتا ہے۔آئین میں کہیں بھی یہ واضح نہیں ہے کہ انتخابی عمل پورا ہونے کے بعد صدر جمہوریہ ،وزیر اعظم کے طور پر کس کی ’تقرری‘کریں؟ کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کو  ’تقرری‘ کا پروانہ حاصل ہو گا یا سب سے زیادہ  اراکین پارلیمان والی پارٹی کے سربراہ کو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کیا جائے گا یا پھر سب سے بڑی اتحادی جماعت  کے لیڈر کو اس عہدے کے قابل سمجھا جائے گا۔ یہ سارا معاملہ صدر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ایسے میں سب  سےبڑا سوال یہی ہے کہ ہمارے ملک کی جمہوریت کو صدر کی صوابدید کے حوالے کیوں کر دیا گیا ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ عوام کے فیصلے کے بعد حکومت سازی کے سارے عمل کا تعین کر دیا جائے اور صدر کے ضمیر کو جگانے کی کوئی صورت حال ہی پیدا نہ ہو؟ یہی سوالات ریاستی حکومتوں کی تشکیل اور گورنر کے کردار کو لے کر بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔
 ملک میں اقلیتی حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور چلی بھی ہیں۔ یہ سب صدر جمہوریہ کی صوابدید پر ہوا ہے۔ انتخابات سے قبل تشکیل پانے والے اتحاد کے پاس منتخب اراکین کی تعداد سب سے زیادہ ہے تو پھر اسے حکومت بنانے کی دعوت دینے کے عدالتی فیصلے کو درحقیقت صدر کے صوابدید کو جگانے کی کوشش ہی سمجھا جانا چاہئے۔ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ حکومت بنانے کیلئے اراکین پارلیمان کی اکثریت کیوں ہونی چاہئے؟ جس سیاسی جماعت کے پاس عوام کی اکثریت ہو، وہ حکومت کیوں نہ بنائے؟اگر ایسا ہوا تو مقررہ وقت سے پہلے حکومت کے گرنے یا اسے گرانے کی کوئی صورت  بھی نہیں رہے گی اور پھر اس حوالے سے ہونے والی بدعنوانی بھی نہیں پنپ سکے گی۔
 آئین میں کہیں بھی تحریک عدم اعتماد اور عدم اعتماد کا ذکر نہیں ہے۔ عوام کے فیصلے کے بعد کسی اور طریقے سے اس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی اعتماد کے ووٹ اور عدم اعتماد کے ووٹ کو پارلیمانی روایت کا حصہ بنادیا جانا موضوع بحث ہے۔ ایک ووٹ سے اٹل بہاری واجپئی کی حکومت کے گرجانے کے حالات کو یاد کریں۔ ادیشہ کے وزیر اعلیٰ بننے والے گر دھر گومانگ نے چونکہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہیں دیا تھا، اسلئے  انہیں اس وقت کے اسپیکر جی ایم سی بال یوگی نے بطور رکن پارلیمان ووٹ دینے کی اجازت دے دی تھی۔ایک حکومت کیلئے  ’میجک فیگر‘ کی ضرورت سے اخلاقیات اور اقدار کا انحطاط  بھی ہوا۔ بعد کے دنوں میں ریاستی حکومتوں کے تناظر میں حکومت کی تشکیل اور گرانے میں بدعنوانی اور بددیانتی کا کھلا کھیل دیکھنے کو ملا۔
  اراکین پارلیمان کو حکومت سازی کا اہم ترین جزو بنا کر کئی طرح کی بیماریوں کو بھی جنم دیا گیا ہے۔ ’آیا رام گیا رام‘کی صورتحال پیدا ہوئی تو ’انحراف مخالف قانون‘ بھی بنایا گیا۔ اس سے بھی بات نہیںبنی اور جب جمہوری حکومتیں بدعنوانی کا طریقہ اختیار کرکے زندہ رہنے لگیں تو انحراف مخالف قانون مزید سخت ہو گیا۔ اس کے باوجود بھی بیماری دور نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اراکین پارلیمان کی خریدو فروخت نے حکومتوں کے بننے اور گرنے میں ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
 اراکین پارلیمان کو قابو میں رکھنے کیلئے وہپ ایجاد کیا گیا۔ اس کی وجہ سے پارلیمانی جمہوریت دراصل غیر جمہوری ہوتی چلی گئی۔ پالیسی ایشوز پر قانون سازوں کو کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے روک دیا گیا۔ اراکین پارلیمان، پارٹی کے خیالات کے ہٹ کر اراکین ایوان میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتے، نہ ہی  ووٹ دے سکتے ہیں۔ وہپ اور انحراف مخالف قانون نے مل کر ایسی صورتحال پیدا کردی کہ خود سیاسی جماعتیں بھی اراکین پارلیمان کے ذریعے ٹوٹنے لگیں۔ لوک جن شکتی پارٹی اور شیوسینا  اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔
  وہ لوگ جو ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں لیکن ووٹ نہیں ڈالتے، وہ  مجموعی رائے دہندگان کی تعداد  کے  نصف سے زیادہ ہیں۔  الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق۲۰۱۹ء میں ہندوستان میں کل۹۱؍ کروڑ۱۹؍ لاکھ،۵۰؍ ہزار۷۳۴؍ ووٹرز تھے جن میں سے۶۱؍ کروڑ ۴۶؍ لاکھ۸۴؍ ہزار۳۹۸؍ رائے دہندگان ہی نے ووٹ ڈالا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں ہندوستان کی ایک محتاط اندازے کے مطابق آبادی ۱۳۸؍ کروڑ ۳۱؍ لاکھ تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ ڈالنے والے آبادی۸۷ء۷۵؍ فیصد تھی جبکہ ووٹر لسٹ میں صرف۶۶؍ فیصد رائے دہندگان ہی کے نام درج تھے۔اس کا مطلب ہے کہ تقریباً۱۲۱؍ کروڑ ووٹرز میں سے صرف۶۱؍ کروڑ ووٹر ہی ووٹ ڈال سکے۔ ووٹ نہ ڈالنے والوں میں سے آدھے ووٹر لسٹ سے باہر تھے جبکہ آدھے نے ووٹر لسٹ میں رہتے ہوئے ووٹ نہیں دیا تھا۔
 ووٹ ڈالنے والوں میں سے بھی ایک فیصد سے زیادہ ووٹرز نے ’نوٹا‘ کا استعمال کیا اور ایسا کرکے انہوں نے پارلیمانی جمہوری عمل سے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس عدم اطمینان کا بھی کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ایسے میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ’ نوٹا‘ جیسے متبادل کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ اس قدم سے ان ووٹروں کے رویے پر کوئی فرق نہیں پڑتا جو ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ بوتھ تک نہیں آتے۔
 ووٹنگ کے عمل سے ووٹ دینے والی آبادی کی نصف تعداد کے دور رہنے کی تشویشناک صورتحال کے درمیان یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ۱۸؍ سے۲۵؍ سال کی عمر کے ووٹرز کو ووٹ دینے کا حق تو حاصل ہے لیکن انہیں الیکشن لڑنے کا حق نہیں ہے۔ ایک جمہوری نظام جو ایک بڑی اور نوجوان آبادی کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ سلوک کرتا ہے وہ صحت مند جمہوریت کیسے دے سکتا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جمہوریت کے بگاڑ کو دور کریں اور ایسے پارلیمانی نظام کے بارے میں سوچیں، جس کی بنیاد پر حقیقی اکثریتی جمہوریت قائم ہوسکے۔
بشکریہ: ستیہ ہندی ڈاٹ کام

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK