Inquilab Logo

قربانی کا مقصد اور اُس کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت

Updated: August 01, 2020, 9:03 AM IST | Shahid Salam | Mumbai

یہ عید ہمیں غریبوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا درس دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس کتنے ہی لوگ ایسے بستے ہیں جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے بلکہ بعض لوگ تو اتنے غریب ہوتے ہیں کہ صرف عید الاضحی کے موقع پر ہی گوشت پکاتے ہیں ۔ ہمیں ایسے لوگوں کے گھر سب سے پہلے گوشت بھیجنا چاہئے۔ یہ لوگ زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

سورہ کوثر کی آیت ’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘( اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو) ، اسی لئے قربانی عید الاضحی کا سب سے پسندیدہ عمل ہے۔ اﷲ کے نبی حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے جسے اﷲتبارک و تعالیٰ نے قیامت تک اپنا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا ہر بال کے بدلہ ایک نیکی (ابنِ ماجہ)۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قربانی کا گوشت اور اس کا خون اﷲ کو نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی نظر نہ تو بندوں کی صورتوں کو دیکھتی ہے نہ ہی بندے کے مال، روپیہ پیسہ، سونے چاندی اور مکانات کو دیکھتی ہے بلکہ اﷲتبارک و تعالیٰ بندے کے دلوں میں چھپی ہوئی اس کی نیت کودیکھتا ہے۔حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا(قربانی کرنا) ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبول حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تمہیں چاہئے کہ خوش دلی سے قربانی کرو۔(ترمذی، ابن ماجہ)
ْ قربانی کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ۱۰؍ ذی الحجہ کو اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے خدائی حکم کی تعمیل کی۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس دن کو امت مسلمہ کیلئے یادگار دن قرار دیا۔ جسے ہم عید الاضحی کے نام سے جانتے ہیں ۔ اس دن کو قربانی کیلئے مخصوص کرنے میں ایک طرف یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس طرح حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی زندگی کے اس سبق آموز واقعے سے ایثار اور قربانی کا سبق ملتا ہے۔ ہمیں قربانی سے یہ سبق لینا چاہئے کہ جانور کی جسمانی قربانی دے کر ہمہ وقت خود اپنی قربانی کیلئے تیار رہیں اور روحانی قربانی کے خو گر و عادی بن جائیں کیونکہ اصل میں روحانی قربانی ہی بڑی قربانی ہے۔ جسمانی قربانی کی تکلیف تو ایک لمحہ کی بات ہے مگر روحانی قربانی تو ساری زندگی کی قربانی ہے جس میں مرکر نہیں بلکہ جی کر حق کی راہ میں ہر تکلیف اور مصیبت برداشت کرنا اور ہر وقت برائی کے خلاف ڈٹے رہنا ہے۔
 عید الاضحی محبت، اخوت اور ہمدردی کا پیغام دیتی ہے،اس لئے آپسی بھائی چارگی کو قائم رکھتے ہوئے امن و سکون کا ماحول بنائے رکھنا چاہئے۔ اس موقع پرشر پسند عناصر کو پنپنے سے روکنے کیلئے آپسی بھائی چارگی بہت ضروری ہے، ہر ممکن کوشش تک صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔ کورونا کی وبا نے لوگوں کی حالت بد سے بدتر کر دی ہے۔ خوشی کے موقع پر ایک دوسرے سے ملنا جنا ، لوگوں کا آپس میں میل ملاپ آپسی رشتہ کو مضبوط کرتا ہے لیکن کورونا کے سبب سے دلوں کی دوری نہ بنائیں بلکہ ماسک ، سینیٹائزر اور جو روک تھام کورونا کے لحاظ سے حکومت نے جاری کیا ہے ، اسکا پورا پورا استعمال کریں اور صاف صفائی کا خاص انتظام رکھیں ، اسلئے کہ پاکی ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ہم خود بھی صاف رہیں اور دوسروں کو بھی صاف رہنے کی ترغیب دیں ۔ قربانی کے جانورکی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے اور اس کا خیال رکھنے کا بہت ثواب بتایا گیا ہے۔ اسی طرح قربانی کے بعد اس کی صاف صفائی کا بھی بہتر خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
  قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم کا عمل بھی بہت ضروری ہے۔مثلاً قربانی کے بعد گوشت کو تین حصہ میں تقسیم کرنا، ایک حصہ غربا و مساکین کیلئے ، دوسرا حصہ رشتہ داروں کیلئے اور تیسرا حصہ ذاتی استعمال کیلئے رکھا جانا چاہئے۔ یہی قربانی کا اصل مقصد ہے۔یہ عید ہمیں غریبوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا درس دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس کتنے ہی لوگ ایسے بستے ہیں جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے بلکہ بعض لوگ تو اتنے غریب ہوتے ہیں کہ صرف عید الاضحی کے موقع پر ہی گوشت پکاتے ہیں ۔ ہمیں ایسے لوگوں کے گھر سب سے پہلے گوشت بھیجنا چاہئے۔ یہی لوگ سب سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں ۔ قربانی کرنے والوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ضرورت مندوں تک قربانی کے گوشت کی تقسیم کریں ۔ اگر اس کے اپنے محلے میں ایسے لوگ موجود نہ ہوں تو ان علاقوں تک قربانی کا گوشت پہنچانے کا بندوبست کریں جہاں ایسے ضرورت مند ہوں ۔سورۃ الحج کی ایک آیت کا ترجمہ ہے کہ ’’ قربانی کے جانوروں سے تم خود بھی کھائو اور ان ضرورت مندوں کو بھی کھلائو جو سوال نہیں کرتے اور ان کو بھی جو سوال کرتے ہیں ‘‘۔ اس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ صاف صاف فرما تے ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے ان لوگوں کو بھی کھلائو جو سوال نہیں کرتے یعنی جو ضرورت مند تو ہیں مگر وہ کسی کے سامنے دست سوال درازنہیں کرتے۔ اگر انہیں دیا جائے تو بخوبی قبول کر لیتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو صبر سے بیٹھے رہتے ہیں ۔انہیں بھی اپنی عید کی خوشی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ عید قرباں تو یہ پیغام لے کر آتی ہے کہ ہم اپنے غریب رشتے داروں اور پڑوسیوں کی ضرورتوں کو بھی اتنا ہی مقدم جانیں جتنا کہ اپنی ضرورتوں کو سمجھتے ہیں ۔اسلئے کہ قربانی کیلئے سب سے پہلے اپنے دل میں تقویٰ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنے آپ کو دکھلاوے سے بچا کر رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔اسی کو قربانی کہتے ہیں اور یہی قربانی کا مفہوم ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK