Inquilab Logo

اپوزیشن کیخلاف غیرمعمولی اقدام کا مقصد صرف کارروائی نہیں، پیغام دینا بھی ہے

Updated: December 24, 2023, 3:32 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

مودی سرکار نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ حزب اختلاف کے اراکین کو معطل کیا ہے تاکہ فوجداری ضابطوں میں تبدیلی کے قوانین اور الیکشن کمشنروں کی تقرری کا بل آسانی سے منظور ہو جائے ، ساتھ ہی ہندی بیلٹ میں ’سوراج ‘ کی شروعات کا پیغام بھی پہنچ جائے۔

By suspending not one or two or three but the entire 146 MPs, the government has made it clear that it will not answer any questions raised regarding the security of the parliament. Photo: INN
حکومت نے ایک دو یا تین نہیں بلکہ پورے ۱۴۶؍ اراکین پارلیمان کو معطل کر کے یہ واضح کردیا کہ وہ پارلیمنٹ کی سیکوریٹی کے تعلق سے اٹھنے والے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دے گی۔ تصویر : آئی این این

آزاد ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ پارلیمنٹ کی وزیٹرس گیلری سے دو لوگ ایوان کے اندر کود گئے اور اپنا احتجاج درج کروایا۔ ہر چند کہ انہیں فوراً پکڑلیا گیا لیکن یہ سب کچھ پارلیمنٹ کی اس نئی عمارت کے اندر ہوا جس کی سیکوریٹی کے بارے میں حکومت کی جانب سےانتہائی بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے اور اس سے کہیں زیادہ گودی میڈیا نے اس عمارت کی سیکوریٹی کو ہوّا بنادیا تھا۔ یہ سب کچھ حیرت انگیز اور افسوسناک تو ہے ہی، اس سے کہیں زیادہ تشویشناک حکومت کا اس واقعہ کے تعلق سے رویہ ہے۔ حکومت نے نہ اس معاملے میں کوئی بیان دیا، نہ وضاحت پیش کی اور نہ ہی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہے۔حالانکہ وہ کہہ رہی ہے کہ اس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے لیکن سچائی یہ ہےکہ کچھ نمائشی اقدامات کرکے پورے واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہر چند کہ ۸؍ سیکوریٹی اہلکار معطل کئے گئے ہیں اور ایک جانچ کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے لیکن حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے اٹھنے والے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یا تو اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا یا پھر وہ اپوزیشن کی تشویش کو خاطر میں نہیں لانا چاہ رہی ہے۔ جس وقت یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تھی، اس وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں سیکوریٹی کے ایسے غیر معمولی انتظامات ہیں جو پرانی عمارت میں نہیں تھے لیکن جب صرف ۲؍ افراد نے حکومت کے دعوے کی پول پوری دنیا کے سامنے کھول دی تو پھر اس معاملے کو ادھر ادھر گھمانے کی کوشش شروع ہو گئی۔ حکومت سیکوریٹی کے تعلق سے اٹھنے والے سوالات اور اپوزیشن کے اعتراضات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کانگریس کی شکست بھلے ہی ہوئی لیکن اس کے ووٹرس کی تعداد بڑھ گئی

اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرنے والے اپوزیشن کے متعدد اراکین پارلیمنٹ کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ انہیں اس انداز میں باہر کا راستہ دکھادیا جائے گا۔ حکومت نے ایک دو یا تین نہیں بلکہ پورے ۱۴۶؍ اراکین پارلیمنٹ کو معطل کر کے یہ واضح کردیا کہ وہ پارلیمنٹ کی سیکوریٹی کے تعلق سے اٹھنے والے کسی بھی سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔ ان اراکین کا مطالبہ بالکل جائز تھا کہ وزیر اعظم یا وزیر داخلہ اس معاملے میں پارلیمنٹ میں آکر بیان دیں اور بتائیں کہ سیکوریٹی میں کوتاہی کہاں اور کس سطح پر ہوئی ہے لیکن انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ حکومت اس نہج پر کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس سے قبل بھی موجودہ احتجاج سے کہیں زیادہ سخت اور شدید احتجاج کئے گئے لیکن اس وقت نہ تو کسی رکن پارلیمان کو معطل کیا گیا، نہ ہی حکومت نے جواب دینے کیلئے اس طرح سے ٹال مٹول کا رویہ اپنایا بلکہ جب جب ایسا کوئی موقع آیا حکومت کی جانب سے اپوزیشن کی تشویش کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ہی کوئی کارروائی بھی کی گئی۔
 ہمیں محسوس ہو تا ہے کہ مودی حکومت جو پارلیمنٹ چلانے اور یہاں سے پورے ملک کو پیغا م دینے کی حکمت عملی میں ما ہر ہو گئی ہے ، نے بالکل واضح انداز میں اپنی حکمت عملی بنائی تھی کہ ملک کے فوجداری نظام کو تبدیل کرنے والے بل ، الیکشن کمشنروں کی تقرری کا بل اور ٹیلی کوم کمپنیوں پر کنٹرول کا بل اسے اسی سیشن میں دونوں ایوانوں سے منظور کروانا ہے جو اس نے آسانی سے کروابھی لیاکیوں کہ دونوں ہی ایوانوں سے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اپوزیشن کے اُن اراکین کو معطل کیا گیا جو اِن بلوں کی سختی سے مخالفت کررہے تھے اور ان پرمسلسل آواز بلند کررہے تھے۔ یہ اراکین عوامی لائف میں بھی اپنی بات سلیقے سے کہنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو دانشورانہ سطح پر جاکر ان بلوں کے مشمولات پر بحث کرسکتے تھے اور قارئین جانتے ہیں کہ مودی سرکار کو دانشورانہ گفتگو اور اس سطح کی کسی بھی بات سے سخت چڑ ہے۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں ایوانوں میں اگر اپوزیشن کی مکمل تعداد موجود رہتی تو ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بل اتنی آسانی سے منظور نہ ہو تا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اپوزیشن ان پر اعتراضات کرکے ان میں ترامیم کروانے میں کامیاب رہتایا پھر اپوزیشن کے اعتراضات پورے ملک کو معلوم ہوجاتے۔ ان بلوں کی مختلف شقوں پر مباحثہ بھی چھڑ سکتا تھا جو حکومت قطعی نہیں چاہتی تھی ۔ اسے صرف جلد از جلد یہ بل منظور کروانے تھے۔ چونکہ اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل پارلیمنٹ کا یہ آخری مکمل اجلاس تھا، اسلئے مودی حکومت نے کمال ِہوشیار ی سے اپوزیشن کے تقریباً ۱۵۰؍ اراکین کو دونوں ایوانوں سے باہر کا راستہ دکھاکر اپنی مرضی سے بل منظور کروالئے۔ 
 پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں کوتاہی کے اصل قصورواروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، اس بارے میں نہ حکومت بتانا چاہتی ہے اور نہ لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے کوئی سنجیدہ بات سامنے آئی ہے جبکہ ان ملزمین کو وزیٹرس پاس جاری کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا کے معاملے کو بھی دبادیا گیا جبکہ سب سے پہلی کارروائی انہیں کے خلاف کی جانی چاہئے تھی۔ پارٹی کم سے کم انہیں وقتی طور پرمعطل ہی کر دیتی لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا بلکہ جن اراکین نے جائز مطالبات کئے انہیں باہر کا راستہ دکھادیا گیا اور پھر وہ دونوں متنازع بل منظور کروالئے گئے جن پر کافی اعتراضات ہورہے ہیں۔فوجداری نظام میں تبدیلی کے قوانین کو خود اپوزیشن اور ماہرین نے انتہائی سخت قرار دیا ہے اور اعتراض کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ملک ’پولیس اسٹیٹ ‘ بن سکتا ہے۔
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں زیرو لینڈ کے مقاصد کے تعلق سے لکھا ہے کہ ان کے منصوبے ’کثیر المقاصد‘ نہیں بلکہ ’کثیر المفاسد‘ ہوتے ہیں۔ اسی پس منظر کو قارئین یہاں بھی ذہن میں رکھیں۔ پارلیمنٹ میں کی گئی غیرمعمولی کارروائی کو ہمیں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں بھی سمجھنا ہوگا کیوں کہ بی جے پی اس الیکشن میں کئی وعدوں کے ساتھ اترے گی اور ساتھ ہی  وہ اپنی کارکردگی کے طور پر فوجداری نظام میں تبدیلی کے قانون کو بھی پیش کرنا چاہے گی۔ الیکشن میں یہ بی جے پی کا اہم موضوع ہو سکتا ہے کہ اس نے ملک میں ’سوراج‘ نافذ کردیا اور انگریزوں کے زمانے کے تمام قوانین کو ختم کرتے ہوئے ہندوستان کی ’اکثریت‘ کی تہذیب کے قوانین کو نافذ کردیا ہے۔ بی جے پی نے اس موضوع کو بھنانے کیلئے پوری تیاریاں بھی کررکھی ہوں گی کیوں کہ ہندی ریاستوں میں یہ اہم موضوع بن سکتا ہے۔ اب گیند اپوزیشن کے پالے میں ہے کہ وہ کس طرح سے اس موضوع کا توڑ تلاش کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK