اس اسکیم کے تحت، صرف آسام کے اصلی باشندے، جو غیر مسلم ہیں اور مخصوص “حساس” اضلاع میں رہتے ہیں، آتشیں اسلحہ کے لائسنس کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 15, 2025, 9:01 PM IST | Guwahati
اس اسکیم کے تحت، صرف آسام کے اصلی باشندے، جو غیر مسلم ہیں اور مخصوص “حساس” اضلاع میں رہتے ہیں، آتشیں اسلحہ کے لائسنس کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کی قیادت میں آسام حکومت نے سرحدی اور “حساس” علاقوں میں صرف غیر مسلموں کو گن لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر مسلم لیڈران، شہری حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران شدید تنقید کررہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی جانب سے اعلان کردہ اس پالیسی کو ناقدین نے امتیازی اور ایک ایسی ریاست میں خطرناک قرار دیا ہے جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کی تاریخ رہی ہے۔
ریاستی حکومت کے ‘سیوا سیتو پورٹل’ کے ذریعے شروع کی گئی اس اسکیم کے تحت، صرف آسام کے اصلی باشندے، جو غیر مسلم ہیں اور مخصوص “حساس” اضلاع میں رہتے ہیں، آتشیں اسلحہ کے لائسنس کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ درخواست دہندگان کو منظوری سے پہلے اپنی حفاظت کیلئے ایک “حقیقی خطرے” کو بھی ثابت کرنا ہوگا۔ شرما نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کا مقصد سرحدی علاقوں میں “مقامی آبادی” کے درمیان “تحفظ کے احساس کو بڑھانا” ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم بندوقیں تقسیم نہیں کر رہے ہیں، صرف لائسنس دے رہے ہیں اور یہ لوگوں کو اپنا دفاع کرنے میں مدد کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔"
یہ بھی پڑھئے: آسام: بے دخل افراد کو پناہ نہ دیں، وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کی شہریوں سے اپیل
مسلم لیڈران کا شدید ردعمل
تاہم، مسلم باشندوں اور سماجی لیڈران کا کہنا ہے کہ ”مقامی“ کی اصطلاح کو منتخبہ طور پر انہیں خارج کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دھوبری سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ عبدالرحمن نے کہا کہ “یہ فیصلہ ایک براہ راست پیغام ہے کہ مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کیا جاتا۔ یہ اقدام مخلوط ابادی والے علاقوں میں صرف ایک کمیونٹی کو مسلح کرتا ہے، جس سے خوف پیدا ہو سکتا ہے اور کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔” انہوں نے زور دیا کہ ”تحفظ کا مطلب سب کی حفاظت ہونی چاہئے، نہ کہ صرف ایک کمیونٹی کی۔ ورنہ یہ تحفظ نہیں، امتیازی سلوک کہلاتا ہے۔“
انسانی حقوق کے میدان میں سرگرم کارکن رخسانہ احمد نے بھی اس پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ”ایک سماجی گروپ کو منتخبہ طور پر مسلح کرنا جبکہ دوسرے کو الگ تھلگ کرنا تباہی کا نسخہ ہے۔“ واضح رہے کہ آسام میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے تشدد کے واقعات بار بار رونما ہوئے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو جنہیں “بنگلہ دیشی مہاجرین” سمجھا جاتا ہے، حالانکہ بہت سے خاندان کئی نسلوں سے ریاست میں رہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: آسام میں مسلمانوں کوبے گھر اور بے آسرا کرنے کی حکومت کی مہم جاری
کانگریس نے بھی تنقید کی
کانگریس نے بی جے پی کی قیادت والی آسام حکومت پر آنے والے انتخابات سے قبل ہندوؤں کی حمایت کو مضبوط کرنے کیلئے اس پالیسی کا استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ کانگریس کے ایم ایل اے انور حسین نے الزام لگایا کہ ”یہ فیصلہ سیکوریٹی کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مسلح تقسیم پیدا کرنے کے بارے میں ہے۔“
تاہم، شرما نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ کسی بھی لائسنس کی منظوری سے پہلے سخت جانچ اور چھان بین کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ”امن تب آتا ہے جب لوگ اپنے گھروں میں محفوظ محسوس کرتے ہیں۔“