Inquilab Logo

اُدے پور کی قابل مذمت واردات

Updated: June 30, 2022, 11:46 AM IST | Mumbai

اُدے پور (راجستھان) میں ایک دُکاندار کنہیا لال، جو پیشے سے درزی تھا، کی دکان پر گاہک بن کر جانے اور ناپ لینے کے دوران اُس کا گلا ریت دینے والے ملزمین پولیس کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ قانون اپنا کام کرے گا مگر اس واقعہ کی ہیبت ہے کہ کم نہیں ہوتی۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اُدے پور (راجستھان) میں ایک دُکاندار کنہیا لال، جو پیشے سے درزی تھا، کی دکان پر گاہک بن کر جانے اور ناپ لینے کے دوران اُس کا گلا ریت دینے والے ملزمین پولیس کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ قانون اپنا کام کرے گا مگر اس واقعہ کی ہیبت ہے کہ کم نہیں ہوتی۔ کنہیا لال کو اتنی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے کہ جس نے بھی اس کی تفصیل سنی، اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ مہذب سماج کو شرمسار کرنے والے اس غیر انسانی جرم کے مرتکبین کے خلاف تیز رفتار عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے تاکہ انہیں بلاتاخیر سخت سے سخت سزا ملے جو دوسروں کیلئے سامانِ عبرت بنے۔ مقامی علماء کے علاوہ قومی ملی تنظیموںنے بھی اس واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جو کہ ضروری تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی جاری کیا جائیگا کہ ایسی حرکتیں پوری قوم کو بدنام کرتی ہیں اس لئے ہر قسم کے تشدد سے ہر قیمت پر اور ہر حال میں گریز ضروری ہے۔  اس سے قبل نپور شرما کے خلاف کانپور، سہارنپور، ہاؤڑہ اور دیگر شہروں میں جو احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اُن کا پُرتشدد ہوجانا نپور شرما کے خلاف مسلمانوں کے مقدمہ کو کمزور کرنے کے مترادف تھا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ جب کچھ لوگ قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو قانون میں تمام مسلمانوں کا اعتماد شک و شبہ کے دائرے میں آجاتا ہے اور اُن کے ذریعہ لڑی جانے والی قانونی جنگ کو حاصل وسیع تر تعاون کا راستہ بھی مسدود ہونے لگتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ نپور شرما کے خلاف بیرونی ملکوں اور تنظیموں کے سفارتی اعتراض و ردعمل سے پیدا ہونے والی کیفیت مذکورہ تشدد کے بعد یکلخت ختم ہوگئی۔  یہی ہوتا ہے جب مٹھی بھر لوگ اپنی کرنی سے پوری قوم کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے قوم کیلئے پائی جانے والی ہمدردی بھی شدید طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ مذکورہ واقعات کے بعد نپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ یا تو دھرا کا دھرا رہ گیا ہے، یا، کسی سطح پر اگر باقی بھی ہے تو اب اس میں اتنی طاقت نہیں رہ گئی ہے۔ اس لئے ہوشمندی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے خواہ اہانت جیسا دل دُکھانے والا واقعہ ہو یا محلے کے چوراہے پر رونما ہونے والا کوئی عام واقعہ۔ تشدد مسائل کا حل ہے ہی نہیں۔ اس کی وجہ سے مسائل نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں، مظلوم کو ظالم قرار دیا جانے لگتا ہے اور متاثرین نت نئی اُلجھنوں میں مبتلا ہوکر اپنے روزوشب کا امن و سکون برباد کربیٹھتے ہیں۔ اُدے پور واردات کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ دادری سے لے کر اب تک ہجومی تشدد کے جتنے بھی واقعات ہوئے اُن کے بعد برادران وطن کی بڑی تعداد نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا، لنچنگ کی شدید مذمت کی اور مسلمانوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ اگر زیر بحث واردات اُدے پور سے شروع ہوکر اُدے پور ہی میں ختم نہیں ہوئی اور خدانخواستہ دیگر جگہوں پر بھی سر اُبھارتی ہے  تو ہجومی تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے فرقہ کا نام بھی ایسا ہی تشدد برپا کرنے والوں میں لیا جائیگا جبکہ مذہب اسلام ہر طرح کے تشدد کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اِس جمہوری ملک میں جہاں قانون کی حفاظت کے ادارے موجود ہیں، کوئی شخص یا گروہ قابل اعتراض حرکت کررہا ہو تو اس کے خلاف قانون کا سہارا لینا چاہئے۔ خود کسی غیر اسلامی حرکت کا ارتکاب کربیٹھنا تو صریح بددماغی ہے۔

udaipur Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK