Inquilab Logo

اخلاقی انحطاط کے تدارک میں ’ذکر الٰہی‘ کا کردار

Updated: April 19, 2024, 5:06 PM IST | Dr. Shafaqat Ali Sheikh | Mumbai

عصرِ حاضر میں اخلاقی انحطاط نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں زہر گھول دیا ہے جس کے سبب زندگی بوجھل و دشوار تر بنتی چلی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟

Generally, when the word dhikr is spoken, it means to remember Allah either with the tongue or with the heart and mind. Photo: INN
عام طور پر جب ذکر کا لفظ بولا جاتا ہے تو ا س سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہوتا ہے خواہ زبان سے ہو یا دل و دماغ سے۔ تصویر : آئی این این

عصرِ حاضر میں اخلاقی انحطاط نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں زہر گھول دیا ہے جس کے سبب زندگی بوجھل و دشوار تر بنتی چلی جارہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ وہ کون سی تدابیر ہیں جنہیں اختیار کر کے اخلاقی انحطاط کے اس جن کو بوتل میں بند کیا جاسکتا ہےاور بے سکونی بے چینی اور اضطراب کی آگ میں جلتی ہوئی زیست کو امن و امان اور سکون و اطمینان سے ہم کنار کیا جاسکتا ہے؟ اس مسئلہ کے بہت سے حل ہیں مگر سب سے بنیادی اور اہمیت کا حامل حل ’’ذکر ِ الہٰی اور صحبت ِ صالحہ‘‘ کی صورت میں موجود ہے جو برائی سے بچانے اور نیکی کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اخلاقی انحطاط کے تدارک میں ’’ذکر الٰہی ‘‘ کی اہمیت کو واضح کیا جارہا ہے:
 ذکر ِ الٰہی 
ذکر دین کی ایک وسیع اصطلاح ہے جس کے لغوی معنی یاد کرنا، نصیحت اور یاد دھانی وغیرہ کے ہیں۔ تاہم اس کے مفہوم میں اس قدر وسعت پائی جاتی ہے کہ قرآنِ مجید کے بقول خود قرآن بھی ذکر ہے، رسول بھی ذکر ہے اور نماز بھی ذکر ہی کی ایک صورت ہے۔ مگر عام طور پر جب ذکر کا لفظ بولا جاتا ہے تو ا س سے مراد اللہ کو یاد کرنا ہوتا ہے خواہ زبان سے ہو یا دل و دماغ سے۔ اسلام کی فہرست ِ عبادات میں ذکر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے بلکہ اسے دیگر عبادات کی روح بھی کہا جا سکتا ہے۔ 
یو ں تو ذکر ہر عبادت کا حصہ ہے تاہم عمومی ذکر اور دیگر عبادات میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ دیگر عبادات میں بالعموم وقت، جگہ، ہیئت وغیرہ میں سے کوئی نہ کوئی پابندی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوتی ہے جب کہ ذکر کے سلسلے میں اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی بلکہ اسے کھلا چھوڑدیا گیا کہ اللہ کے بندے اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے ہر حال میں جب اور جیسے چاہیں اللہ کا ذکر کرتے رہیں تاکہ انسان کو اللہ کی ذات اور اُس کی عظمت و رفعت کا استخصار رہے اور اُس کے مقابلے میں اپنی حیثیت بھی یاد رہے کہ وہ کیا ہے اور اُس کی ذمہ داری کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ بھولنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ گویا انسان بھولنے والے فعل سے بچ نہیں سکتا لیکن اگر وہ یہ بھی بھول جائے کہ اللہ اُس کا خالق و مالک اور اُس کا آقا ہے اور اُس کے مقابلے میں وہ اُس کا حقیر اور ذلیل بندہ ہے تو اُس کی دنیا و آخرت دونوں ہی برباد ہو جائیں گی، اس لئے ذکر کرتے رہنے کا حکم دیا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایک دوسرے سے مشورہ زندگی کی راہ کو آسان بناتا ہے

ذکر اور اصلاحِ قلب
انسان کی شخصیت میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسے جسم کی سلطنت کا بادشاہ کہا جا سکتا ہے، تمام اعضاء و جوارح دل کے تابع ہیں۔ جتنی بھی حرکات و سکنات اور اعمال و افعال انسان سے سرزد ہوتے ہیں وہ سب دل کی اندرونی حالت کے آئینہ دار ہو تے ہیں۔ جیسا دل کا حال ہو گا ویسے ہی اعمال و افعال ہوں گے۔ حضور علیہ السلام نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’آگاہ ہو جاؤ، انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب یہ سنور جائے تو پورا جسم سنور جاتا ہے اور جب یہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جان لو کہ یہ دل ہے۔ ‘‘
(ملا علی، قاری، مرقاۃ المفاتیح)
اس کا مطلب یہ ہو ا کہ انسان بیرونی دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اندرونی دنیا کا عکس ہوتا ہے۔ لہٰذااگر انسان کے ظاہری اخلاق کو درست کرنا ہے تو اُس کے لئے اُس کی قلبی حالت کو درست کرنا ہوگا۔ دل کی بیماریو ں کی دوا ذکرہے۔ 
’’بے شک دلوں کو بھی اُسی طرح زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ پوچھا گیا کہ اس کی صفائی کا ذریعہ کیا ہے؟ فرمایا موت کو یاد رکھنا اور قرآن کی تلاوت۔ ‘‘(مسند الشهاب)
یہاں بتایا جا رہا ہے کہ مختلف عوامل کی بنا پر دل زنگ آلودہ ہو جاتا ہے اُس میں میل کچیل اور گدلا پن آجاتا ہے، جس کی بنا پر صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔ دل کے اس زنگ کو دور کر کے اسے اپنی فطری حالت میں لانے کیلئے مجرب نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔ 
ایک اور مقام پر حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’بے شک ہر چیز کے لیے ایک ریگ مار (صفائی کا ذریعہ) ہوتا ہے اور دل کا ریگ مار اللہ کا ذکر ہے۔ ‘‘(كنز العمال)
یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ انسان کتنی ہی احتیاط کر لے پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسے معاملات ہو تے ہیں جن کی بنا پر دل نے کسی نہ کسی درجے میں زنگ آلودہ ہو جا نا ہوتا ہے۔ لہٰذا ذکر کے ذریعے آئینہ دل پر پڑی ہوئی گردو غبار کو ساتھ ہی ساتھ صاف کرنے کا اہتمام کیا جانا بہت ضروری ہے۔ دل بیمار ہو یا صحت مند دونوں صورتوں میں ذکر ضروری ہے۔ فرق یہ ہے کہ جب دل روحانی بیماریوں کا شکار اور زنگ آلودہ ہوتا ہے تو ذکر کی حیثیت دوا کی ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے دل کی صفائی ہوتی ہے۔ پھر جب مسلسل اور متواتر محنت سے دل صاف ہو جاتا ہے تو یہی ذکر دل کی غذا بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روز بہ روز اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب کی کیفیات میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گویا ابتداء میں ذکر ایک تلخ دوائی کی طرح ہوتا ہے جس کی طرف طبیعت راغب نہیں ہوتی، لیکن اگر طبیعت پر جبر کر کے کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت ذکر کی پابندی کی جائے تو رفتہ رفتہ یہی ذکر ایک صحت مند نشے کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس سے طبیعت کو تسکین ملتی ہے۔ 
 کثر تِ ذکركی حکمت
ذکر کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو فقط ذکر کا حکم نہیں دیا بلکہ کثرتِ ذکر کا حکم دیا ہے:
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو۔ ‘‘(الاحزاب)
اس کثرت ذکر سے کیا مراد ہے؟ اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟ اس کی طرف اشارہ بعض دوسرے مقامات پر ملتا ہے:
’’اور اپنے رب کا ذکر کیا کریں جب آپ بھول جائیں۔ ‘‘ (الکہف)
سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔ ‘‘(النور)
اِن آیات سے آشکا ر ہورہا ہے کہ ایک بندہ مومن کو ہر وقت اور ہر حال میں کسی نہ کسی رنگ میں ذکر میں مشغول رہنا چاہیے۔ 
احادیثِ مبارکہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیوی زندگی کے اُمور کو سر انجام دیتے ہوئے اللہ کی یاد میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا ایک پسندیدہ اور مطلوب کا م ہے:
’’نبی ﷺ ہر وقت ذکرِ الٰہی کی کیفیت میں رہتے تھے۔ ‘‘(صحيح مسلم بشرح النووي)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:’’بے شک اسلام میں بہت سی باتیں ہیں، ہمیں کوئی ایک بات ایسی بتائیں جو سب کی جامع ہو۔ حضورﷺ نےفرمایا: تمہاری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔ ‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کے دن کس بندے کا درجہ اللہ کے ہاں بہت بلند ہو گا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں۔ ‘‘(جامع ترمذی) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK