حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، وہیں یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے
EPAPER
Updated: October 14, 2022, 12:05 PM IST | Dr. Abdul Hai Abrow | Mumbai
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، وہیں یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے
اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزّت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابلِ نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ یونانی، رومی، ایرانی اور زمانۂ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔ درحقیقت عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان ، مرد کے یکساں درجہ دیا۔
دورِ جاہلیت میں عربوں کا نظامِ وراثت اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ وراثت میں ان کے ہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ان کے ہاں میراث پانے کے درج ذیل تین اسباب تھے:۱) قرابت اور نسبی تعلق: لیکن اس کے لئےشرط یہ تھی کہ وارث بالغ اور جنگی صلاحیت کا حامل ہو، اور ترکہ کا سب سے پہلا حقدار بڑا بیٹا تھا، اس کے ہوتے ہوئے کوئی اور وارث نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے بعد پوتا، پھر باپ، دادا اور ان کے بعد بھائی اور چچا وغیرہ کا حق تھا۔۲) وَلاء : اسی جنگ و جدال کی وجہ سے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے اور ایک شخص دوسرے شخص سے باہم مدد اور نصرت کا معاہدہ کرتا تھا جسے ’وَلاء‘ کہا جاتا ہے اور قریبی وارث کی موجودگی میں بھی یہ شخص وارث ہوتا تھا۔۳) تَبَــنِّیْ: سابقہ اقوام اور مذاہب میں لے پالک بیٹے کا رواج تھا اور اب بھی بہت سے فرقوں میں باقی ہے، کہ لوگ دوسروں کے بچے کو گود لیتے ہیں اور وہ حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اس کی جائیداد کا وارث ہوتا ہے۔ عربوں میں بھی یہ طریقہ رائج تھا۔ اسلام نے آکر اسے ختم کیا۔
بعثت ِ نبویؐ کے نتائج
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔ دُنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کی پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔زمانۂ جا ہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی،ان میں ایک سبب ’نسب‘ تھا تو دوسرا ’معاہدہ‘ (یعنی ایک دوسرے سے خوشی وغم میں تعاون کریں گے، ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا)۔تیسرا سبب ’متبنٰی‘ (یعنی منہ بولا بیٹا ) وارث بنتاتھا۔اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میں ان اسباب کے ساتھ مواخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا ، جو حقیقت میں معاہدہ ہی کی ایک صورت تھی۔
لیکن اسلام نے تدریجاً ان اسباب کو ختم کردیا اور نسب، نکاح اور ولاء کو وراثت کا سبب قرار دیا۔ یعنی اب ترکہ میں سے صرف اس کو حصہ ملے گا جس کا میت کے ساتھ نکاح ہوگا یا کوئی نسبی تعلق ہوگا۔ چونکہ زمانے کا رواج میراث میں عورتوں کو نظرانداز کرنے اور محروم کرنے کا تھا اس لئےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عورتوں کا ذکر خصوصیت سے کیا۔
عورتوں کا حصہ اور قرآن مجید کااسلوب
آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور فرمائیں: ’’لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا۔‘‘ ۚ (النساء:۱۱) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دولڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا۔ علامہ آلوسی ؒنے روح المعانی میں لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۰ۚ فرمایا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے ، لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے۔ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لئےفرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا۔گویا یہ فرمایا کہ تم صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دگنا کر دیا ہے، لڑکیوں کے مقابلے میں،لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو بالکلیہ میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔امام قرطبیؒ احکام ا لقرآن میں اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ آیت (یوصیکم اللہ فی اولادکم) ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے، اس لئےکہ فرائض (میراث) کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاں تک کہ یہ علم کا ایک تہائی ہے۔ (تفسیرقرطبی، القرطبی، جلد۶، مؤسسۃ الرسالۃ)
اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد اس کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ (النساء:۱۳) یعنی یہ میراث کے احکام اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود ہیں۔ ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لئےبطور انعام وجزا کے فرمایا :’’جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (النساء:۱۳)اسی طرح دوسری جگہ پر جاہلیت کی رسوم کے خلاف اسلام کے امتیازی قانون کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’مردوں کے لئےاس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لئےبھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘(النساء: ۷)اس آیت میں پانچ قانونی حکم دیئے گئے ہیں: ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے، عورتیں بھی اس کی حقدار ہیں۔ دوسرے یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہئے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے، اس کے دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہئے، یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔ تیسرے یہ کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال واملاک پر جاری ہوگا خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ کر مرا ہو۔ پانچویں اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔
احکام میراث سے متعلق احادیث
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جن ورثا کے حصے مقرر ہیں انہیں ان کے حصے دے دو، جو بچ جائے وہ زیادہ قریبی مرد رشتہ دار کاہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث الولد من ابیہ وامّہ، حدیث: ۶۳۶۳) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے ، جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع ؓکی بیوی اپنی دوبچیوں کو لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یارسول ؐاللہ!یہ سعد کی بچیاں ہیں، جواُحد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچانے پوری جائیداد اپنے قبضہ میں لے لی ہے اور ان کے لئےایک حبّہ (دانہ) تک نہیں چھوڑا ہے؟ اس پر میراث کی درج بالا آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چچا کو بلاکر فرمایا :’’ بچیوں کو کل ترکہ کا دوتہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو، جو بچ جائے وہ تمہارا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابواب الفرائض، عن رسول اللہ ، باب ماجاء فی میراث البنات)
حضرت زید بن ثابتؓ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک عورت کا ترکہ اس کے شوہر اور سگی بہن میں کس طرح تقسیم ہوگا؟ تو انھوں نے دونوں کو ترکہ میں نصف نصف کا حقدار ٹھہرایا اور کہا کہ میں نے حضور ؐ کو اسی طرح کا فیصلہ فرماتے دیکھا ہے۔ (مسنداحمد، مسندالانصار)