Inquilab Logo

حضرت ابراہیم کی سخت آزمائشیں اور اُن میں آپ کی شاندار کامیابیوں کی تاریخ

Updated: August 01, 2020, 8:59 AM IST | Mufti Md Mujahid Husain Habibi | Mumbai

اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے محبوب بندوں کو آزمائشوں میں ڈالتارہا ہے، بالخصوص ابنیائے کرام طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرے ہیں ۔ ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی باراور مشکل ترین آزمائشوں سے دوچار ہوئے اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ ہر مرتبہ کامیاب و کامران رہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

خالق کائناتنے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ئے کرام دنیا میں بھیجے ،جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امام الانبیا حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رہا ۔ان میں حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو دوسرے انبیا پر کئی جہتوں سے ایک خاص قسم کی بزرگی اور عظمت حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کا ذکر کثرت سے فرمایا اور مسلمانوں کوان کی زندگی اور قربانیوں سے سبق لینے کی تلقین فرمائی ہےتاکہ مسلمان ان کے نقش پا کو اپنا کر اپنی دنیا اورآخرت سنوار سکےلہٰذا آئیے ان کی زندگی کے چندگوشوں کا مطالعہ کرکے ہم اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں ۔ 
نام ونسب
 آپ کا نام ابراہیم ، لقب خلیل اللہ اور کنیت ابوالضیفان (بہت بڑے مہمان نواز) ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے:ابراہیم بن تارخ بن ناخور بن ساروع بن رعو ابن تاتع بن عابر بن شالح بن ارفخشند بن سام بن نوح۔ تفسیر حقانی
  ایک روایت کے مطابق آپ طوفان نوح کے۱۷۰۹؍ سال بعد پیدا ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً۲۳۰۰؍ سال قبل شہر بابل کے قریب قصبہ کونی میں آپ کی ولادت ہوئی۔ (تفسیر عزیزی)۔ تفسیر خزائن العرفان کے مطابق آپ امواز کے علاقے مقام سوس میں پیدا ہوئے۔ از :نعیمی 
آپ کے والد اور چچا
  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ اور والدہ کا نام’امیلہ‘ تھا۔ آزر آپ کے چچا کا نام ہے جو کافر تھا اور حالت کفر ہی میں فوت ہوا۔حضرت ابراہیم نے ایسی قوم اور ایسے علاقے میں آنکھیں کھولیں تھیں جہاں کفروبت پرستی اور شرک کا دور دورہ تھا لیکن ان تمام خرافات اور واہیات کے باوجود آپ جادۂ حق سے وابستہ رہے اور حکمت کے ساتھ بندگان خدا کو دین حق اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے۔
حضرت ابراہیم کو کفار کی دھمکی
 جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے چچا اور قوم کو اسلام کی دعوت دی اور بت پرستی ترک کرنے کو کہا تو جواب میں آپ کو دھمکیاں دی گئیں اور آپ کی قوم بت پرستی وشرک پر مصر رہی اور ان باتوں کو ماننے سے انکار کردیا جو آپ کہا کرتے تھے۔ قرآن حکیم گواہی دیتا ہے(۱)’’چچانے کہا کیا روگردانی کرنے والا ہے تو میرے خداؤں سے اے ابراہیم۔ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کردوں گا اور مجھ سے زمانہ دراز تک بے علاقہ ہوجا۔‘‘ (سورہ مریم) (۲) ’’آپ کی قوم سے کوئی جواب نہ بن آیا بجز اس کے کہ انہوں نے کہا کہ اسے قتل کرڈالو یا اسے جلادو۔‘‘ سورہ العنکبوت
 یعنی اعلان حق اور دعوت حق کے سبب آپ کو ڈرایا دھمکایا جانے لگا مگر تمام تر دشواریوں کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں لغزش تک نہ آئی۔آپ مسلسل حکمت ودانائی کے ساتھ دعوت وتبلیغ فرماتے رہے۔ ایک موقع پر جب ہر سال کی طرح قوم ابراہیم اپنے سالانہ میلے میں جانے لگی، جو اُن کے بتوں کے نام پر ہر سال منعقد کیا جاتا تھا اور قوم لہو ولعب میں مشغول رہتی تھی پھر وہاں سے واپس آکر بت خانے میں بتوں کی پوجا سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں کو چلی جاتی تھی، توجاتے وقت آپ کی قوم نے آپ کو بھی ساتھ چلنے کو کہا لیکن آپ نے اس تنہائی سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے حیلہ فرمایا اور ساتھ جانے سے عذر پیش کیا۔جب سب لوگ میلے میں چلے گئے تو آپ بت خانہ تشریف لے گئے اور ان بتوں سے تحقیر آمیز لہجے میں ارشاد فرمایا کہ’’ تم کھاتے کیوں نہیں ہو؟ تمہیں کیا ہوا ،بولتے کیوں نہیں ہو؟ پھر پوری قوت سے ضرب لگائی ان پر داہنے ہاتھ سے‘‘ ( سورہ الصافات)پھر کلہاڑی کی مدد سے آپ نے ان بتوں کو مارنا شروع کردیا یہاں تک کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ریزہ ریزہ کردیا جیسا کہ قرآن حکیم میں مذکور ہوا:’’پس آپ نے انہیں ریزہ ریزہ کرڈالا۔‘‘ سورہ الانبیاء
  آپ نے ان بتوں کو چورچور کردیا اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ قوم واپس آکر اس سے سوال کرے۔ چناں چہ جب قوم میلے سے واپس آئی اور بتوں کا یہ حشر دیکھا تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگی کہ یہ کس نے کیا؟ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’انہوں نے (قوم نے) کہاجس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا ہے بے شک وہ ظالم ہے(معاذ اللہ) ان میں سے کچھ بولے ہم نے ایک جوان کو انہیں برا بھلا کہتے سنا جسے ابراہیم کہتے ہیں ، وہ کہنے لگا تو اسے لوگوں کے سامنے لاؤ شاید وہ گواہی دے۔ ان کافروں نے کہا کہ کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم؟ آپ نے فرمایا:ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھو اگر بولتے ہیں تو انہوں نے اپنے نفسوں کی طرف رجوع کیا اور بولے بے شک تم ہی ظالم ہو(معاذ اللہ)۔ پھر اپنے سروں کے بل اوندھے گرے کہ تمہیں خوب معلوم ہے، یہ بولتے نہیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے اور نہ نقصان پہنچائے تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو، کیا تمہیں عقل نہیں ۔ ‘‘ سورہ الانبیاء 
 غرض یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو مسمار کردیا اور ان کی تحقیر فرما کر قوم پر یہ بات واضح کردی کہ جنہیں تم پوجتے ہو جب وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو تمہاری کیا کریں گے اور جو بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں تو تمہاری باتیں کیا سنیں گے؟حضرت ابراہیم کی ان باتوں کو سن کر قوم غصے سے آگ بگولہ ہوگئی اور یہ فیصلہ کیا کہ انہیں جلادیا جائے۔چناں چہ قوم کے اس فیصلے کے بعد حضرت ابراہیم کو قید کردیا گیا اور حتی الامکان تمام جگہوں سے لکڑیاں جمع کرنا شروع کردی گئیں ، یہاں تک کہ چالیس روز تک لکڑیاں جمع ہوتی رہیں ۔ اس دوران ایک بوڑھی عورت جب بیمار ہوئی تو اس نے منت مانی کہ جب میں شفا یاب ہوجاؤں گی تو ابراہیم کو جلانے کیلئے لکڑیاں لاؤں گی۔قصہ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیمؑ کو رسیوں سے جکڑ دیا گیا اور آگ میں پھینکا جانے لگا، اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے اور زبان پر یہ الفاظ جاری تھے۔ :لا الہ الا انت سبحانک رب العالمین لک الحمد ولک الملک لا شریک لہ۔’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے اور رب العالمین ہے تمام تعریف تیرےلئے ہی ہیں سب چیزیں تیری ہی ملک ہیں تیرا کوئی شریک کار نہیں ۔‘‘ جب ابراہیم علیہ السلام کو منجیق میں رکھ کراس آسمانی چھوتے شعلوں میں پھینکا گیا تو آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔‘‘ (ابن کثیر ، بخاری شریف)اللہ تعالیٰ نے آپ پر آگ کو ٹھنڈا فرمادیا نتیجتاً آگ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔ جب آپ صحیح سالم آگ سے نکل آئے تو ان کافروں نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ ہجرت کر جائیں ۔ اللہ کے خلیل نے اللہ کی رضا اور ایمان کے تحفظ کیلئے ہجرت کرنا ہی مناسب سمجھا۔
 ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشیں 
 اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا پہلا امتحان اس وقت لیا جب انہیں آگ میں پھینکا گیا۔ آپؑ اس آزمائش میں پورے اترے اور جان کی پروا نہ کرتے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے دعوت حق سے پیچھے نہ ہٹے لیکن آپ کی آزمائشوں کا سلسلہ یہیں بند نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کئی اور امتحان لئے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور چہیتے واکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل کو حرم کی ویران وبیابان سرزمین پر چھوڑ آؤ۔ اس وقت دور دور تک مکہ میں کوئی آبادی نہ تھی۔ ایسی اجاڑ جگہ اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر واپس آجانا جبکہ وہاں نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہی دانہ پانی کا نام ونشان، حضرت ہاجرہ ان دنوں حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ،اپنے شیر خوار بچے اور بیوی کو ایسی جگہ چھوڑ آنا سخت ترین امتحان تھا۔ اس امتحان کا مقصد جہاں اپنے محبوب بندے کی آزمائش کرنی تھی، وہاں دوسری طرف کعبہ شریف کی تعمیر اور مکہ مکرمہ کو آباد کرنا بھی مقصود تھا۔
 غرض یہ کہ حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں مشکیزہ کا پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں یہا ں تک کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا بھوکی پیاسی ہوگئیں جس کے سبب دودھ بننا بھی ختم ہوگیا اور آپ کے ساتھ ساتھ بچہ بھی بھوک وپیاس سے بلک اٹھا۔ بچے کی تڑپ اور پیاس آپ سے دیکھی نہ گئی۔ اس بے قراری کے عالم میں دوڑ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھیں کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے یا کوئی انسان ہی نظر آجائے جو اُن کی مدد کرسکے لیکن وہاں کچھ نظر نہ آیا تو اُتر کر دوڑتی ہوئی مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں کہ گوہر مقصود نظر آجائے مگر یہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ اسی بے قراری، تڑپ اور پریشانی میں آپ نے صفا ومروہ کے سات چکر لگائے۔جب آپ بالکل تھک گئیں اور پانی ملنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ حضرت اسماعیل بھی پیاس سے سخت مضطر تھے، آپ نے ایڑی زمین پر پٹخنا شروع کردیا تب اللہ کے فضل سے حضرت اسماعیل کا معجزہ ظہور میں آیا۔ جہاں آپ ایڑی ماررہے تھے، اللہ نے وہاں سے پانی کا ایک چشمہ جاری فرمادیا۔ جب حضرت ہاجرہ نے اس منظر کو دیکھا تو مارے خوشی کے پانی سے کہنے لگیں زم زم یعنی رک جا رک جا۔
 جب بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے پانی پیا تو آپ کا دودھ جاری ہوگیا۔ اس وقت ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے آپ سے کہا کہ ’’اس بات سے خوف نہ کرو کہ تم ضائع ہوجاؤگی بے شک یہاں بیت اللہ ہے اس کی تعمیر یہ بچہ اور اس کے والد کریں گے ۔بے شک اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی تیسری آزمائش جو انتہائی عظیم الشان ہے اوروہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین حق کی خاطر ہجرت کی اور اپنے رب سے ایک نیک اولاد کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ایک بردبار وحلیم بیٹا عطا فرمایالیکن جب حضرت اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا صبر وحلم اور بردباری واضح کرنا مقصود ہوا، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے ۷؍ذی الحجہ کی رات خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آپ علیہ السلام صبح تفکر وتردد میں مبتلا رہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یا فقط خواب و خیال تو نہیں ، آٹھ تاریخ کا دن گزر جانے پر رات پھر خواب دیکھا۔ صبح یقین کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے۔ اس کے بعد آنے والی رات کو پھر خواب دیکھنے پر صبح اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اسی لئے ۱۰؍ ذی الحجہ کو یوم النحر (ذبح کا دن ) کہا جاتا ہے ۔ آپ نے اس خواب کا ذکر حضرت اسماعیل سے کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اتنی بڑی آزمائش کا بردباری اور خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرنے کیلئے خود کو پیش کردیا۔یہاں چونکہ مطلوب ومقصود حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی نہیں تھی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش مقصود تھی، اسلئے جب انہوں نے حضرت اسماعیل کے حلقوم پر چھری رکھی اور اسے چلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل امیں کے ساتھ جنت سے ایک دنبہ بھیجا جسے آپ نے حضرت اسماعیل کی جگہ لٹا دیا اور حضرت اسماعیل کو اس مقام سے ہٹا لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو قربان ہونے سے بچا لیا لیکن جانور کی قربانی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے صبح قیامت تک کیلئے قربانی کے عمل کو جاری فرمادیا ہے جو ہمیں جد الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کی قربانیوں اور آزمائشوں کی یاد دلاتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK