Inquilab Logo Happiest Places to Work

میراث کے حصے اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ ہیں ،اِن میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں

Updated: June 16, 2023, 10:57 AM IST | Dr. Raihan Akhter | Mumbai

گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’فرائض و وراثت کا علم سیکھنے کی طرف توجہ دیجئے‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

Islam has worked with fairness and justice in the principle of inheritance between man and woman, which requires wisdom and prudence.
اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان اس میراث کے اصول میں عدل و انصاف سے کام لیا ہے جس میں عقل و تدبر کی ضرورت ہے

قرآن مجید میں تقسیم ِ وراثت کا ذکر: ارشاد باری تعالیٰ ہے 
 ’’ مَردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘  (سورۃ النساء:۷)
اس آیت میں مرد و عورت کے حصے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ قاعدہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم ’الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر ہو گی۔
مرنے والے کے مال متروکہ کو کس اعتبار سے اور کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی بیشتر تشریح و تفصیل سورئہ نساء میں بیان کی گئی ہے،  ملاحظہ ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انھیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں، تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں، اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد۔ تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے؟ یہ تو اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصے ہیں، یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔‘‘ 
(النساء :۱۱)
قرآن نے واضح کردیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں، وہ اس کا طے شدہ حکم ہے، اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں اور تمہیں پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہیے۔ تمہارے خالق و مالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے:
’’ اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہربات کا علم رکھنے والا، بُردبار ہے۔ (النساء:۱۲)
مفتی محمد شفیعؒ مذکورہ آیات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:  وَصِيَّۃً مِّنَ اللہِ۝۰ۭ، یعنی جو کچھ حصے مقرر کئے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی، اس سب پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے یہ ایک عظیم وصیت اور مہتم بالشان حکم ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَاللہُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۝۱۲ۭ یعنی اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے۔ جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اللہ کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بدکرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی، جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ نیزجو کوئی مرنے والا دین یا وصیت کے ذریعے سے ضرر پہنچائے گا اللہ کو اس کا بھی علم ہے، اس کے مواخذہ سے بےخوف نہ رہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں سزا نہ دے، اس لیے کہ وہ حلیم ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو یہ دھوکا نہ ہونا  چاہئے کہ میں بچ گیا۔(ایضاً)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جہاں ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ چنانچہ فرائض و میراث کے تعلق سے بھی اسلام نے گزشتہ تمام رسوم و رواج کو عدل و انصاف اور فطرت کے خلاف بتا کر جہاں ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام میراث متعارف کرایا ہے اور صالح اور تندرست معاشرے کے قیام کے لئے اصول وضع کئے ہیں، وہیں گردش دولت کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ دولت کی فطرت میں گردش ہے نہ کہ ارتکاز، حالانکہ کچھ مغرب زدہ اور اسلام دشمن لوگ اسلام کے نظامِ میراث پر اعتراضات کر تے ہیں کہ اسلام میں یہاں عورت اور مرد کے لئے مساوات نہیں ہے اور عورت کو کم تر باور کرایا گیا ہے تو اس سے کیسے صالح معاشرہ کا وجود ہو سکتا ہے ؟ ان کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان اس میراث کے اصول میں عدل و انصاف سے کام لیا ہے جس میں عقل و تدبر کی ضرورت ہے۔
   عصر ِ حاضر اور وراثت کی تقسیم
اسلام نے ’علم فرائض‘ کی جتنی اہمیت اور فضیلت بیان کی ہے، آج حالات میراث کے تعلق سے اتنے ہی بد تر ہیں اور آپؐ کی پیش گوئی اِس وقت کے حالات کی پوری پوری ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے پس پشت چند اسباب ہیں جن کے باعث آج عوام کی ایک بڑی تعداد وراثت کی تقسیم کے حوالے سے کوتاہیوں میں ملوث ہے، جیسے ہمارے یہاں مالِ وراثت حکمِ شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح شرعی اعتبار سے میت کا چھوڑا ہوا تمام مال، مالِ وراثت ہے ، چاہے وہ نقدی، سونا، چاندی، زمین و جائیداد اور مکان و دکان وغیرہ کسی بھی شکل میں ہو ، لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس سلسلے میں بھی بہت کوتاہی اور لاپروائی سے کام لیتے ہیں، اور چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً سونے یا چاندی کی کوئی انگوٹھی، یا بوقت ِ غسل میت کی جیب سے نکلنے والی تھوڑی بہت نقدی کو، مال وراثت میں شامل نہیں کرتے، اور وہ چیز جس کے ہاتھ لگتی ہے، وہی اس کو استعمال کر لیتا ہے۔ شرعاً ایسا کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی مال وراثت ہے اور اس میں بھی تمام ورثاء کا حق ہے۔بعض لوگ میت کے ذمہ واجب الادا قرض کی ادائیگی سے انکار کردیتے ہیں اور میت کا چھوڑا ہوا تمام مال وراثت باہم تقسیم کر لیتے ہیں۔یہ بھی قطعاً نادرست عمل ہے۔ 
کچھ لوگ جہیز کی شکل میں دی جانے والی اشیاء کو وراثت کا بدل سمجھ کراپنی بیٹیوں یا بہنوں کو وراثت سے ان کا حصہ نہیں دیتے، جس کا آج کافی رواج ہو گیا ہے۔ یہ خیال سراسر باطل ہے، لہٰذا اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے انتظامات میں جو اخراجات کئے جائیں یا اُسے تحفے تحائف دیئے جائیں، انہیں وراثت کا بدل ہرگز تصور نہ کیا جائے۔ عورتوں کو مختلف بہانوں یا ڈرا کر وراثت کے حق سے محروم رکھنا بھی خلاف شرع ہے۔ بہت سے  لوگ اس خیال سے مالِ وراثت تقسیم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں کہ موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور بیٹیوں کو دی جانے والی جائیداد یا مال وراثت کے پرائے لوگ (یعنی شوہر اور اس کی اولاد ) حصے دار اور وارث بن جائیں گے۔
 الغرض اسلام ہی وہ دین ہے، جس نے ہماری زندگی کے لئے عائلی اصول و ضوابط بھی اسی طرح متعین کئے ہیں، جس طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے کئے ہیں۔ دیگر قوموں کے معاملات خدائی ہدایات کی بنیاد پر نہیں بلکہ روایات اور کلچر کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے یہاں یہ معاملات مختلف انداز سے انجام پاتے ہیں، جب کہ اسلام کا عائلی نظام پوری دنیا میں یکساں طورپر نافذ اور جاری ہے اور اگر کہیں جاری نہیں ہے  (جیسے آج کل وراثت کے موضوع کو ہی لوگ بھول چکے ہیں )، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے لئے اسلام کی ہدایات اور تعلیمات تبدیل ہوگئی ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے اس مقدس سبق کو پڑھیں، اگر پڑھ رکھا ہے تو اسے پھر سے یاد کریں اور نصف علم پر مبنی وراثت ِ اسلامی کو اختیار کرکے حقوق العباد کو ادا کریں۔ اسی میں ہم سب کی خیر ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK