Inquilab Logo

سری لنکا کے حالات۔ایک خطرے کی گھنٹی

Updated: July 19, 2022, 11:30 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

سری لنکا میں جو کچھ ہورہا ہے، اسےدیکھ کر دلوں میں ہول اٹھنی لگتی ہے۔ حد یہ ہے کہ عوام کا ایک جم غفیرصدر راجا پکشے کے صدارتی محل میں داخل ہو چکا ہے۔ سری لنکا میںشاہی بستر استراحت پر نوجوان کشتی لڑرہے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

سری لنکا میں جو کچھ ہورہا ہے، اسےدیکھ کر دلوں میں ہول اٹھنی لگتی ہے۔ حد یہ ہے کہ عوام کا ایک جم غفیرصدر راجا پکشے کے صدارتی محل میں داخل ہوچکا ہے۔ سری لنکا میںشاہی بستر استراحت پر نوجوان کشتی لڑرہے ہیں۔ ان کے سوئمنگ پول میں لڑکے ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔ صدر خود مفرور ہو چکے ہیں۔ بحری فوج نے انہیں بھاگنے میں مدد دینے سے انکار کر دیا۔ وہ ایک لانچ پر سوار ہو کر مالدیپ پناہ لینے پہنچ چکے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا ہے کہ مالدیپ نے انہیں پناہ دی ہے کہ نہیں۔ لوگ پناہ کی تلاش میں در بدر بھٹکتے ہیں صدر راجاپکشے دربدرکے بجائے سمندروں کی لہر بہ لہر بھٹک رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کے برادر خورد اور سری لنکا کے وزیر اعظم مہندر راجا پکشے بھی ایسے ہی حالات میں اپنے محل سے فرار ہوئے تھے۔ ان کا محل نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ موروثی سیاست اور اس کے نتیجے میں قومی دولت کے لٹیروں کا یہ انجام دنیا نگاہ عبرت سے دیکھ رہی ہے۔
 گزشتہ کئی برسوںسےسری لنکا کے اقتدارپر صرف دو خاندانوں کا قبضہ رہا ہے۔ ایک خاندان سری لنکا کی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم سری مائو بھنڈارا نائکے کے داماد جے وردھنے کا خاندان تھا اور دوسرا راجا پکشے خاندان تھا۔ کبھی ایک خاندان اقتدار پر قابض ہو جاتا تھا اور کبھی اسے ڈھکیل کر دوسرا قابض ہو جاتا تھا۔ فی الوقت راجا پکشے خاندان اقتدار پر قابض رہا۔ ایک بھائی صدر تھا اور دوسرا وزیر اعظم اس کے علاوہ کابینہ کے دوسرے وزراء بھی اسی خاندان کے افراد تھے ۔ یہی نہیں تمام اعلیٰ عہدوں پر بھی اسی خاندان کے لوگ مامور تھے۔ ملکی ترقی اور دفاع کے نام پرعالمی مالی اداروں سےدھڑا دھڑ قرض لئے جا رہے تھے اور اس کا بڑا حصہ منی لانڈرنگ کے ذریعہ بیرون ممالک بھیجا جا رہا تھا۔گلوبل مہنگائی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے خزانے میں بمشکل ڈھائی ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ پیٹرول معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ پیٹرول کا ذخیرہ ختم ہی ہوچکا تھا۔ ملکی خزانے میں اتنا بھی نہیں بچا تھا کہ بیرونی قرضوں کاسود بھی ادا کیا جاسکے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا۔ بینک بند ہو گئے۔  بیروزگاری اور فاقہ کشی عوام کا مقدر بن گئیں۔
 سری لنکا کے حالات کی اس خطہ کے جس ملک سے سب سے زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے، وہ ملک پاکستان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سری لنکا کا بحران سنگین معاشی حالات کا نتیجہ ہے، جب کہ پاکستان کا معاشی بحران نہایت نا عاقبت اندیش سیاسی بحران کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ تیس برس سے صرف دو خاندان ہی راج کرتے رہے ہیں، شریف خاندان اور زرداری خاندان ۔   دونوں سر سے پائوں تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دونوں کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں۔ دونوں کے اربوں ڈالر برطانیہ اور امریکہ کے بینکوں میں جمع ہیں۔ دونوں موروثی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں تو برادر خورد شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنا دیئے جاتے ہیں۔ بیٹی مریم صفدر کو پارٹی کی نائب صدر بنا دیا جاتا ہے۔ سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف زرداری صدر بنتے ہیں تو بالغ ہوتے ہی بیٹے بلاول پارٹی کے نائب صدر بن جاتے ہیں۔ آج بھی یہی عالم ہے والد شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں اور صاحبزادے حمزہ شہباز ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہاں بھی آج عوام کرپشن اور موروثی سیاست کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ وہاں بھی معاشی حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ جی ڈی پی نیچے آچکی ہے۔ ایکسپورٹ (بر آمدات) میں کئی فیصد کمی ہو چکی ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ بیرونی قرضوںکے سود کی قسطیںدینا دوبھر ہو چکا ہے۔ ڈالر آسمان چھو رہا ہے تو اسٹاک ایکسچینج زمین میں دھنسا جا رہا ہے۔ بس خدا کا شکر ہے کہ سری لنکا کی طرح عوام کا غیض وغضب بے لام اور بے قیادت نہیں ہے۔ پاکستان میں عوامی غیض وغضب کو آئینی اور قانونی سمت کیلئے عمران خان کی شکل میں ایک مقبول لیڈر موجود ہے ، عوام اس کی ہدایت کے منتظر رہتے ہیں اور اس کی ہدایات تسلیم بھی کرتے ہیں۔ 
 یہ سمجھنا بھول ہوگی کہ ہندوستان کبھی سری لنکا نہیں بن سکتا۔ جانکار حلقے جانتے ہیں کہ سری لنکا ہمارے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ملک کی معیشت کس تاریخی بد حالی کا شکار ہے، اس کا علم صرف ان کو نہیں ہے ، جو بالکل ان پڑھ اور حالات سے یکسر بے بہرہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں ایسے افراد کا فیصد خطہ کے کسی اور ملک سے بھی زیادہ ہے۔حکومت ہند سمجھتی ہے کہ میڈیا کو خرید کر بہت سے ایسے لوگوں کو بھی بے خبر رکھا جا سکتا ہے جو بصورت دیگر حالات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن وہ  تفریخی چیزوں کے علاوہ میڈیا سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور ہر سنجیدہ موضوع کو سیاست سمجھ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ لیکن یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، اس لئے حقائق کو بہت دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ موبائل فون نے واقعی دنیا کو ہر شخص کی مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ جو لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جی ڈی پی کیا ہوتی ہے اور اس میں گراوٹ کے کیا معنی ہوتے ہیں، انہیں بھی یہ تو معلوم ہی ہے کہ ۴۵؍ کروڑ نوجوانوں نے ملازمتوں کی تلاش چھوڑ دی ہے، کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہے کہ ملازمتیں ہیں ہی کہاں جو ملیں گی۔ انہیں اگر یہ نہیں معلوم کہ برآمدات کی شرح کم اور درآمدات کی شرح زیادہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، انہیں بھی یہ تو معلوم ہے کہ ملک کے بازاروں میں چینی سامان بھرا پڑا ہے اور دیسی مال غائب ہے۔ انہیں اگر یہ نہیں معلوم کہ درآمدات کی شرح بڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کا بھنڈار خالی ہو رہا ہے، تو بھی انہیں یہ معلوم ہی ہے کہ ہندوستانی روپے ڈالر کے مقابلہ میں کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جوپچھلے ایک سال سے سری لنکا کو دیمک کی طرح چاٹ  رہی تھیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مودی سرکار لوک سبھا میں بھاری اکثریت ہونے کی وجہ سے بہت مضبوط نظر آتی ہے ، لیکن اندر سے اتنی مضبوط نہیں ہے۔ اکثریت تو راجا پکشے کے پاس بھی تھی۔سری لنکااور ہندوستان میں ایک اور بات مشترک ہے۔ جس طرح بی جے پی کی سیاست کی بنیاد عوام کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی پر قائم ہے ، اسی طرح راجا پکشے نے بھی سنہالی نیشنلزم کی تحت پہلے تمل بھاشیوں کو قومی دھارے سے دور کیا پھر مسلمانوں کو بھی دور کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ جب راجا پکشے پر وقت پڑا تو کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا، سنہالی بھی نہیں کیونکہ برباد معیشت نے سب سے زیادہ انہی کونشانہ بنایا، بالکل جس طرح بدحال معیشت کا سب سے بڑا نشانہ ہندوستان میں ہندو ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK