Inquilab Logo

ہیمنت بسوا شرما کا دکھ

Updated: March 23, 2023, 10:19 AM IST | Mumbai

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما (سرما) کو بی جے پی میں شمولیت کا انعام مل چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس سے بھی بڑے انعام کا لالچ ہے جبکہ جو ملا وہ کسی بھی زاویئے سے چھوٹا نہیں ہے۔

Himanta Biswa Sarma
ہیمنت بسوا شرما

  آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما (سرما) کو بی جے پی میں شمولیت کا انعام مل چکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس سے بھی بڑے انعام کا لالچ ہے جبکہ جو ملا وہ کسی بھی زاویئے سے چھوٹا نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ بڑے انعام کیلئے مسلم مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ چونکہ اقلیتوں کی مخالفت کرنے والوں کو اس دور میں خوب خوب نوازا جا رہا ہے اس لئے ہیمنت بسوا شرما بھی پیش پیش ہیں۔ ان کے بیانات تو دل آزاری کا سبب بنتے ہی ہیں، اقدامات سے بھی مسلم دشمنی صاف جھلکتی ہے۔ کم عمر کی شادی کے ’’جرم‘‘ میں زیادہ تر مسلم خاندانوں پر شکنجہ کسنے سے لے کر مدرسوں کے خلاف سرگرم ہونے تک، بسوا شرما تسلسل کے ساتھ خبروں میں ہیں۔ وہ بی جے پی کے ایسے وزیراعلیٰ ہیں جن سے پارٹی کے دیگر لیڈر، جو عرصہ دراز سے پارٹی سے وابستہ ہیں، یقیناً حسد کر رہے ہوں گے کہ انہیں تو کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور یہ پارٹی کی مرکزی قیادت کے اتنے لاڈلے ہوگئے!
 جہاں تک دینی مدرسوں کے خلاف سرگرم ہونے کا تعلق ہے، بسوا شرما اس صف میں تنہا نہیں ہیں۔ فرقہ پرستوں کی نگاہوں میں مدارس ہمیشہ سے کھٹکتے رہے ہیں۔ اسی لئے یہ فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مخالفین آج تک کسی مدرسے کو دہشت گردی سے جوڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ اس الزام کے جھوٹا اور بے بنیاد ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ مگر اکثریتی طبقے کو شک و شبہ میں مبتلا کرنے اور ووٹوں کے ارتکاز کو یقینی بنانے کے مقصد سے یہ جانتے ہوئے کہ کہیں کچھ نہیں ہے، بیان بازی اور طومار باندھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ تفرقہ پروری برسوں سے جاری ہے مگر گزشتہ آٹھ نو سال میں یہ مہم زیادہ جارحیت کے ساتھ چلائی گئی ہے۔ یوپی میں وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے مدارس کے سروے کا حکم دیا۔ یہ خبر تو ملک کے نیوز چینلوں اور اخبارات میں اہتمام سے چھپی کہ مدارس کا سروے شروع ہوچکا ہے، مگر، کیا ملا اس عنوان پر خاموشی ہے۔ اصل میں اہل اقتدار جانتے تھے کہ سروے غیر ضروری ہے مگر سیاست اپنی فتنہ سامانیوں سے کب باز آتی ہے۔ اس کیلئے مدرسوں کی جانچ کی خبر ہی کافی ہوتی ہے۔ یہ خبر ایسا بیج ہے جسے نیوز اینکرس بڑے جوش و خروش سے بوتے ہیں تاکہ گرما گرم ڈبیٹس کی لہلہاتی فصل اگا سکیں۔ بہرکیف، یوپی میں تو صرف سروے جاری کیا گیا، ہیمنت بسوا شرما نے مدارس کا نام و نشان مٹا دینے کا عزم کیا ہے۔
 یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ مدرسہ دشمنی کا سبب حقائق سے اہل سیاست و اقتدار کی ناواقفیت ہے کہ یہ درسگاہیں کیوں قائم کی جاتی ہیں اور یہاں کیا پڑھایا جاتا ہے۔ وہ آر ایس ایس ہو یا بجرنگ دل، وی ایچ پی ہو یا بی جے پی، سب جانتے ہیں بلکہ ملک کے عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں کہ مدرسہ کیا ہے اور کیوں ہے مگر ان کا مقصد ہوّا کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ ہوّا کھڑا ہوجانے کے بعد جب حکام کوئی الزام ثابت نہیں کرپاتے ہیں تو سنگین الزام یا بڑی کارروائی کا جواز کسی چھوٹی غلطی یا بے ضابطگی کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ شاید اسی کو خفت مٹانا کہتے ہیں۔
 ہیمنت بسوا شرما کی حکومت ذمہ داران  ِ مدارس کو پریشان تو کرسکتی ہے، مدرسوں کو مٹانے کے اپنے عزم میں کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ مذہب کی تعلیم دینا جرم نہیں ہے۔ حکومتوں کو مدارس کا شکرگزار ہونا چاہئے کیونکہ ملک میں اکثریت ان مدرسوں کی ہے جو سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالے بغیر لاکھوں طلبہ کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں۔  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK