یہ بات ۶۰ء کی دہائی کے وسط یا اس کے کچھ بعد کی ہے۔ کوکن کے گائوں کردے( تحصیل داپولی، ضلع رتناگیری) میں اردو میڈیم کا ایک اسکول چوتھی جماعت تک اور مراٹھی میڈیم اسکول ساتویں جماعت تک تھا۔ اس دور میں گائوں کی آبادی کے تناسب سے دونوں اسکولوں میں طلبہ کی تعداد اطمینان بخش تھی۔
یہ بات ۶۰ء کی دہائی کے وسط یا اس کے کچھ بعد کی ہے۔ کوکن کے گائوں کردے( تحصیل داپولی، ضلع رتناگیری) میں اردو میڈیم کا ایک اسکول چوتھی جماعت تک اور مراٹھی میڈیم اسکول ساتویں جماعت تک تھا۔ اس دور میں گائوں کی آبادی کے تناسب سے دونوں اسکولوں میں طلبہ کی تعداد اطمینان بخش تھی۔ اردو میڈیم میں چاروں جماعتوں کو پڑھانے والے ایک ہی مدرس ہوا کرتے تھے جو ظاہر ہے باہر کے کسی گائوں یا تحصیل سے پڑھانے کے لئے آتے تھے ۔ ہمیں پڑھانے والے استاد کا نام ابو علوی (جناب) تھا۔ ہم طالب علم ہی نہیں گائوں کے سارے لوگ بھی انہیں جناب ہی کہتے تھے۔ وہ قریب ہی واق بستی ہرنئی سے آتے تھے۔ کبھی چاند جناب بھی آتے۔ ان دونوں کی آمدورفت کی سواری سائیکل ہی ہوتی۔ اسے ان کے نہ کہنے پر بھی ہم خوشی سے کپڑے سے پونچھنے کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ ہماری سائیکل سے محبت یہیں سے شروع ہوئی تھی کیونکہ گھر میں بڑے بھائیوں کی سائیکلوں تک تو رسائی ممکن نہ تھی۔
مراٹھی میڈیم اسکول ساتویں جماعت تک ہونے کے وجہ سے اس اسکول میں کافی اساتذہ تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اردو اسکول کا مدرس رخصت پر چلا جائے تو مراٹھی میڈیم سے کوئی مدرس آکر خانہ پری کے طور پر ہمیں پڑھا جاتا۔ وہ آکر مراٹھی کی کچھ عام فہم لیکن مزےدار نظمیں پڑھاتے جو ہمیں فوراًیاد ہو جاتیں، پھر ہم نصاب کی اردو نظموں کے علاوہ ان مراٹھی نظموں کو بھی پڑھتے اور گھر والوں کو سناتے۔’’جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘ کے مصداق گھر کے کچھ اہل خیر بزرگوں سے ان نظموں کو سنانے کے عوض ’چراغی‘ بھی پاتے۔ جنہیں نہ دینا ہوتا وہ عید پر دینے کا وعدہ کر کے ٹال دیتے۔ خیر...نہ دینے والے کا بھی بھلا۔ مراٹھی اسکول سے پڑھانے کے لئے آنے والے کچھ مدرس ایسے بھی ہوتے جو طلبہ سے اردو نظمیں اور سبق سنتے۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ شاید اردو زبان کی شیرینی ان سے ایسا کرواتی ہو۔ مراٹھی اسکول کے اساتذہ کا کبھی کبھار ہماری اردو اسکول میں آنا، ہم اردو والوں کے لئے تبدیلیٔ آب و ہوا کی مانند ہوتا۔ وہ نہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے نہ مار تے۔ جوشی گروجی آتے تو اپنے پڑھانے کی ابتدا وہ ہم بچوں سے علامہ اقبال کی نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘سن کر کرتے تھے۔ انہیں یہ نظم شاید پسند تھی۔ ہم طالب علموں کو بھی جو اردو نظمیں یاد ہوتیں، انہیں لہک لہک کر سناتے تھے۔شاید مراٹھی اساتذہ بھی اس نئے ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہےہوں۔
اردو اور مراٹھی اسکول یوم آزادی اور یومِ جمہوریہ ایک ساتھ مناتے تھے۔ پربھات پھیری نکلتی۔ پہلے پنچایت آفس ( جو اس وقت ہمارے محلے کی طرف تھا) کے احاطے میں اردو مراٹھی اسکولوں کے طالب علم جمع ہو کر جھنڈا لہراتے۔ پھر اردو اسکول کا نمبر آتا۔ آخر میں مراٹھی اسکول جاکر وہاں کا ترنگا لہرایا جاتا۔ جشن میں حب الوطنی کے گیت گائے جاتے، ناٹک اور گانا بجانا ہوتا۔ ہم اردو اسکول کے بچے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ علامہ اقبال کی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا...‘‘ اردو اسکول بچے پیش کرتے۔ تقریب میں بچوں کے والدین بھی شرکت کرتے۔ آخر میں ہندو اور مسلمان والدین اپنے بچوں کی بہترین کارکردگی پر انعام و اکرام دے کر ان کا حوصلہ بڑھاتے۔ اختتام پر ہم بچوں کو ناریل پاک(ناریل کی برفی)، روے کے لڈو، جلیبی اور شربت کا انتظار ہوتا جسے پاکر ہم پھولے نہ سماتے۔
چوتھی جماعت تک اردو ذریعہ تعلیم کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد پانچوں جماعت کیلئے اردو والوں کو تین کلومیٹر دور، مروڈ نامی گاؤں جانا ہوتا تھا ۔ ضلع پریشد اردو میڈیم اسکول مروڈ، ساتویں جماعت تک تھا۔ گائوں سے مروڈ جانے والی سڑک کچی تھی۔ ایسی کچی کہ اس پر سوائے بیل گاڑی اور سائیکل کے کسی سواری کا چلنا ممکن نہیں تھا۔ اس تین کلومیٹر کے سفر کو طے کرکے ہم آٹھ دس بچے اپنی اردو اسکول پہنچتے۔ یہ وہ بچے ہوتے جن کے والدین کو اردو زبان سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ ورنہ گائوں میں ساتویں جماعت تک اسکول کے ہوتے ہوئے وہ اپنے ننھے منے بچوں کو اتنی دور کیوں بھیجتے! ایسے والدین ہی کے سبب آج کوکن میں اردو زبان کا پرچم بلند ہے جو آج بھی اپنے بچوں کو اردو پڑھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ شکر ہے کہ یہ اسکول آج بھی قائم ہے ورنہ اردو اسکولوں کو اس تیزی سے انگریزی میڈیم کی نظر لگ رہی ہے کہ نظر اتارنے والے بھی اب انگریزی کے گن گان کرنے لگے ہیں۔ اِدھر ایک بات اردو کے حق میں یہ اچھی ہوئی ہے کہ مسلم اداروں کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں اب اردو بطور زبان پڑھائی جارہی ہے۔
آئیے اب آپ کو لگے ہاتھوں مروڈ کے متعلق یہ جانکاری دیتا چلوں کہ یہ بھی ہمارے گائوں کردے اور ہر نئی کے درمیان ایک ساحلی بستی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی ہمارے گائوں سے زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر سمندری جہازوں پر کام کرتے ہیں۔ اس گائوں میں برہمنوں کی بھی خاصی آبادی ہے۔ یہ گائوں بھارت رتن دھنڈو کیشو کروے (مہارشی انا صاحب کروے) کی جائے پیدائش ہے۔ یہ وہی انا صاحب کروے ہیں جنہوں نے ایک بیوہ سے شادی کرکے ہندو مذہب میں بیواؤں کی شادی دوبارہ نہ کرنے کی رسم کو توڑا تھا۔ ایسا کرنے پر انہیںمروڈ اور اطراف کے برہمنوں کاعتاب جھیلنا پڑا تھا۔چرچ گیٹ اسٹیشن (مشرق) کی بغل سے گزرنے والی سڑک انہیں مہارشی انا صاحب کروے سے منسوب ہے۔
مزید ایک واقعہ سن ۶۴ءمیں ہوا تھا یعنی مشہور اسمگلر ڈینیل ہیلی والکاٹ کی وجہ سے ہر نئی مروڈ اخبارات کی سرخیوں میں رہا تھا۔ والکاٹ نامی اسمگلر کو اترنا تو جنجیرہ والے مروڈ میں تھا مگر نقشے پر ہرنئی والا مروڈ دیکھ کر پائلٹ غچہ کھا گیا اور یہاں کے سمندر کنارے اترگیا۔ دو نشستوں والا یہ ہوائی جہاز سمندری ریت میں دھنس گیا اور وہیں جم کر رہ گیا۔ (مزید جانکاری کے لئے، گوگل پر والکاٹ کی مفصل کہانی ملاحظہ کریں۔)اردو میڈیم اسکول اور ہمارے والدین کی اردو سے محبت کا ذکر ہورہا تھا۔ ہم آٹھ دس بچوں کے والدین نے ہمیں مروڈ کی ضلع پریشد اسکول میں داخل کروایا۔ یہاں بھی ہمیں اچھے اساتذہ میسر آئے۔ حسن احمد لسنے (چپلون)، عبدالستار رکھانگے، کراڈ والے ملا جناب، خیرالنسا قادری میڈم کے نام اب بھی یاد ہیں۔ موسم کی خرابی پر ہم کردہ والے طلباء کو جلد چھٹی دے دی جاتی تھی۔ اسکول سے جلدی نکلتے دیکھ کر مقامی طلبہ ہمیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے۔ ہم ان کا منہ چڑاتے ہوئے اسکول سے خوشی خوشی نکلتے۔
ہمارے وقت میں پرائمری اسکول میں چپراسی نہیں ہوا کرتا تھا لہٰذا اسکول کی صاف صفائی اورگھنٹی بجانے کا کام طالب علموں ہی سے لیا جاتا تھا۔ ایک ذمہ داری ہم طالب علموں کی ہر ہفتے اسکول کے فرش کو گوبر سے لیپنے کی بھی ہوتی تھی۔ پانچویں جماعت سے اوپر کے بچوں کے گروپ بنائے گئے تھے جو سنیچر کو اسکول کی چھٹی کے بعد سارے اسکول کے فرش کو گوبر سے لیپ دیتے تھے۔ہم کردہ کے لڑکوں کا بھی ایک گروپ بنایا گیا تھا مگر ہمیں رعایت یہ دی گئی تھی کہ ہمیں کسی کے باڑے میں گوبر لانے کے لئے نہیں جانا ہوتا تھا۔ یہ مقامی لڑکوں کی ذمہ داری ہوتی۔ ہمارے گائوں کی لڑکیوں کو بھی مقامی لڑکیوں کی طرح اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا سوائے پیدل یا بیل گاڑی کے اسکول آنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ مروڈ گائوں تک بھی اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی دن بھر میں داپولی سے صبح و شام، صرف دو مرتبہ بس آیا کرتی تھی۔ ہمارے گائوں والوں کو بھی بس سے داپولی جانے کے لئے مروڈ ہی آنا پڑتا تھا۔ ایسے میں اگر کسی گائوں والے کی بیل گاڑی گائوں سے ہماری اسکول کی طرف آتے جاتے ہوئے خالی ہوتی تو وہ ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھالیتا۔ ایسا کرنے میں غیر مسلم برادران بھی پہل کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت سے شاید مجھے بھی مراٹھی ہائی اسکول بھیج دیا جائے گا۔ یہ تشویش مجھے لاحق ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے اسی دوران داپولی میں ہمارا مکان تعمیر ہوگیا اور نیشنل اردو ہائی اسکول داپولی میں تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔